عدلیہ مخالف بینرز کیس،سپریم کورٹ نے پولیس تحقیقات کو یکسر مسترد کرتے ہوئے تفتیشی خالد اعوان کو جھاڑ پلا دی،دو ہفتے میں ذمہ داروں کا تعین کرنے اور ان کے خلاف تحقیقات مکمل کر کے رپورٹ پیش کرنے کا حکم دے دیا

پیر 24 نومبر 2014 17:19

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ تاز ترین اخبار۔ 24نومبر 2014ء) سپریم کورٹ نے عدلیہ مخالف بینرز کیس میں پولیس تحقیقات کو یکسر مسترد کرتے ہوئے تفتیشی خالد اعوان کو جھاڑ پلا دی اور انہیں دو ہفتے میں ذمہ داروں کا تعین کرنے اور ان کے خلاف تحقیقات مکمل کر کے رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔ جسٹس اعجاز افضل خان نے ریمارکس دیئے ہیں کہ تفتیشی افسر اپنے تجربات کے برعکس کام کررہے ہیں اگر کوئی ملزم غلط بیان دیتا ہے تو اس کے بیان کے نتیجے میں حقائق تک پہنچنے کے لئے تحقیقات نہیں روکی جا سکتیں۔

بظاہر پولیس تحقیقات کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔دیکھنا چاہتے ہیں کہ حساس علاقے میں ملک کی اعلی ترین عدلیہ کو بدنام کرنے کی کوشش کس نے کی ہے جبکہ جسٹس اعجاز چوہدری نے ریمارکس دیئے ہیں ۔ملزم راشد اگر فری لانس صحافی ہیں تو کہیں نہ کہیں اس کی کوئی تو خبر چھپی ہوگی اس کا کسی حساس ادارے سے تعلق تو نہیں۔

(جاری ہے)

کیا وہ کسی ایجنسی کے لئے کام کررہا ہے کیونکہ محض ایک کاروباری شخص جس کا سپریم کورٹ میں کوئی مقدمہ بھی زیر سماعت نہیں کیوں اعلی عدلیہ کے ایک جج کے خلاف اتنی حد تک جا سکتا ہے اس کے پیچھے کوئی تو ہے جس کو پولیس چھپانے کی کوشش کررہی ہے ۔

انہوں نے ریمارکس پیر کے روز دیئے ہیں ۔جسٹس اعجاز افضل خان کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی بنچ نے مقدمے کی سماعت کی ۔اس دوران ڈپٹی اٹارنی جنرل خواجہ احمد حسین پیش ہوئے اور انہوں نے عدالت کو بتایا کہ ملزم راشد جو کہ فری لانس صحافی ہے نے عدلیہ مخالف بینرز لگانے کی تمام تر ذمہ داری قبول کی ہے ۔ اس نے مجسٹریٹ کے روبرو بیان دیا کہ اس سارے معاملے میں وہ ذاتی طور پر ملوث ہے اس میں کوئی دوسرا ان کے ساتھ شامل نہیں ہے۔

اس کے خلاف پولیس چالان مکمل کر کے عدالت میں پیش کر دیا ہے اسی پر عدالت نے کہا کہ پولیس نے جھوٹے بیان پر تحقیقات بند کر دی ہیں اس پر پولیس تفتیشی خالد اعوان نے عدالت کو بتایا کہ جس سیکرٹ رپورٹ کی بات کی تھی اس میں واضح کر دوں کہ راشد کے بارے میں پتہ چلا ہے کہ اس کا انٹی ٹیررسٹ ایجنسی سے تعلق رہا ہے ۔آج کل وہ کاروبار کے لئے پاک افغان سرحد پر بھی جاتا ہے ویسے وہ صحافی ہے اور خبریں بھی دیتا رہتا ہے اس پر عدالت نے کہا کہ پتہ کریں کہ کسی ایجنسی سے تعلق تو نہیں اگر صحافی ہے تو کسی نہ کسی ادارے کے ساتھ تعلق بھی ہوگا کہیں نہ کہیں خبریں بھی شائع ہوتی ہوں گی اس کی تمام تر تفصیلات اور خبروں کی کٹنگ عدالت میں پیش کی جائے ۔

عدالت نے تفتیشی کی استدعا پر کیس کی مزید سماعت دو ہفتوں کے لئے ملتوی کر دی

متعلقہ عنوان :