آپریشن ضرب عضب جلد از جلد منطقی انجام تک پہنچایا جائے، کلیر کئے گئے علاقوں کے آئی ڈی پیز کی باعزت واپسی اور آبادکاری کا انتظام کیا جائے،شہداء کے لواحقین اور زخمیوں کے لیے شرعی دیت اور علاج معالجے کیلئے جامع پیکج منظور کیا جائے،قبائل کا تباہ شدہ انفراسٹرکچر بحال کرنے کیلئے خصوصی اقدامات کئے جائیں،نقصانات کا معاوضہ ادا کیا جائے ،فاٹا میں میڈیکل ،انجینئرنگ اور دیگر فنی ادارے قائم کئے جائیں، ان علاقوں کو ملک کے دیگر ترقی یافتہ علاقوں کے برابر لانے کیلئے ترجیحی منصوبے تشکیل دیئے جائیں،فاٹا میں صنعتی زون بنائے جائیں، ان کو اپنے علاقوں میں روزگار مہیا ہو سکے ،اکشن ان ایڈ آف سول پاور ریگولیشن جیسا ظالمانہ قانون منسوخ کیا جائے، جرگہ نظام کو مضبوط کیاجائے، میڈیا آئی ڈی پیز کے حساس معاملے کو انسانی بنیادوں پرقومی سطح پر اجاگر کرنے میں اپنا کردار بڑھائے

جمعیت علماء اسلام (ف) کے قبائلی جرگے میں سیاسی و مذہبی جماعتوں اور قبائلی عما ئدین کا مطالبہ ،جرگہ کا اعلا میہ جاری مولانا فضل الرحمن، اسفند یار ولی، آفتاب شیر پاو، محمود خان اچکزئی، حیدر عباس رضوی،شاہ جی گل آفریدی ودیگر کاخطاب

ہفتہ 22 نومبر 2014 21:09

اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین ۔22 نومبر) جمعیت علماء اسلام (ف) کے گرینڈ قبائلی جرگے میں متفقہ طور پر سیاسی و مذہبی جماعتوں اور قبائلی عما ئدین نے مطالبہ کیا ہے کہ فاٹا میں جاری آپریشن ضرب عضب جلد از جلد منطقی انجام تک پہنچایا جائے، کلیر قراردیئے گئے علاقوں کے آئی ڈی پیز کی وہاں باعزت واپسی اور ان کی آبادکاری کا انتظام کیا جائے،شہداء کے لواحقین اور زخمیوں کے لیے شرعی دیت اور علاج معالجے کیلئے ایک جامع پیکج منظور کیا جائے،قبائل کا تباہ شدہ انفراسٹرکچر بحال کرنے کیلئے خصوصی اقدامات کئے جائیں ، اور نقصانات کا معاوضہ ادا کیا جائے ،فاٹا میں میڈیکل ،انجینئرنگ اور دیگر فنی ادارے قائم کئے جائیں، اور ان علاقوں کو ملک کے دیگر ترقی یافتہ علاقوں کے برابر لانے کیلئے ترجیحی منصوبے تشکیل دیئے جائیں،فاٹا میں صنعتی زون بنائے جائیں تاکہ ان کو اپنے علاقوں میں روزگار مہیا ہو سکے ،اکشن ان ایڈ آف سول پاور ریگولیشن جیسا ظالمانہ قانون منسوخ کیا جائے، جرگہ نظام کو مضبوط کیاجائے، ذرائع ابلاغ آئی ڈی پیز کے حساس معاملے کو انسانی بنیادوں پرقومی سطح پر اجاگر کرنے میں اپنا کردار بڑھائے۔

(جاری ہے)

ہفتہ کویہاں کنونشن سنٹرمیں منعقدہ جے یو آئی کے جرگے میں مولانا فضل الرحمن، اے این پی کے سربرا اسفند یار ولی،قومی وطن پارٹی کے صدر آفتاب خان شیر پاوٴ،پشتون خواہ میپ کے صدر محمود خان اچکزئی،ایم کیو ایم کے حیدر عباس رضوی،شاہ جی گل آفریدی،،سنیٹر صالح شاہ،ملک خان مرجان و دیگر نے خطاب کیا ۔کانفرنس کے اختتام پر مولانا فضل الرحمن نے متفقہ اعلامیہ پڑھ کر سنایا اورشرکاء کی تائید حاصل کی۔

کانفرنس سے اختتامی خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ قبائل امن چاہتے ہیں اور قبائل کے سروں پر جو جنگ کے بادل چھائے آگ برسا رہے ہیں، یہ جنگ ہم پر کس نے مسلط کی ہے یہ جنگ کس کی ضرورت ہے؟ میں بحیثیت مسلمان ، میں ایک بحیثیت پشتون، میں بحیثیت امت مسلمہ کی نمائندگی کرتے ہوئے امریکہ اور استعماری طاقتوں کویہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ جنگ ہماری ضرورت نہیں ہے ہم جانتے ہیں کہ تمہارا ایجنڈا کیا ہے، امریکہ کہہ چکا ہے کہ ترقی پذیر ملکوں کی جغرافیائی سرحدیں حتمی نہیں، امریکہ نے کہا ہے کہ بیسیویں صدی برطانیہ کی تھی اب اکیسیویں صدی ہماری ہے۔

اب دنیا ہمارے مفادات کے تابع تقسیم ہو گی۔ آج جو کچھ عرب دنیا میں اور مشرق وسطیٰ میں ہو رہا ہے نظر آرہا ہے کہ جغرافیائی تقسیم کا آغاز ہو چکا ہے 2010ء میں امریکی وزیر خارجہ نے کہا تھا کہ ہم نئی مشرقی وسطیٰ تقسیم دیں گے۔ آپ دیکھ لیں جو کچھ ہو رہا ہے یہ کس کا ایجنڈا ہے یہ مغرب کا ایجنڈا ہے ۔ اس جنگ کے بعد اگلی قسط میں کیا ہو رہا ہے اس کا بھی ہمیں پتہ ہے، کردوں کو مسلح کرکے لڑانے کی سازش کی جارہی ہے، کرد ، ایران، شام ،عراق ، ترکی میں بستے ہیں آج کردوں پر جنگ مسلط کی گئی ہے کل یہی کرد جب اسلحہ اٹھائیں گے تو اس کھیل کی دوسری قسط ہوگی۔

ہمارے اندر بھی جغرافیائی تقسیم کی باتیں ہو رہی ہیں نقشے شائع کئے جارہے ہیں دشمن کے بغیر جنگ نہیں لڑی جاتی۔ اس لئے ہم یہ کہتے ہیں کہ جنگ مسلمانوں اور امت مسلمہ کی ضرورت نہیں ہے ہم بات چیت، تجزیہ اور تحریر کرنے والے لوگ ہیں جمہوریت کے علمبردار بھی بنتے ہو اور جنگیں بھی بپا کی ہوئی ہیں، قاتل بھی خود ہیں او ر منصف بھی ہیں۔ قبائل اور ہمارا جرم ایک ہے قبائل بھی امن چاہتے ہیں اور ہم بھی امن کے طلبگار ہیں اور یہی ہمارا جرم ہے اور جب میں اس ایجنڈے پر روکاوٹ بنتا ہوں تو مجھ پر حملے ہوتے ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے ملک کو اس صورتحال سے نکالیں، نئے دور میں اقتصادی دوڑ لگی ہوئی ہے اور چین اس کی قیادت کررہا ہے چین نے جو اقتصادی جال پھینکا ہے ساری دنیا نے اس جال کو اپنے گھیرے میں لے لیا ہے۔

افغانستان کے صدر کو بھی یہ مشورہ دیا تھا کہ آپ بھی اس اقتصادی سفر میں شامل ہو جائیں۔ ہم جس طرح پاکستان کوخوشحال دیکھنا چاہتے ہیں اسی طرح افغانستان کو ایک خوشحال ملک دیکھنا چاہتے ہیں مگر اس کے لئے امن لازمی ہے۔ ہمیں اس بات پر اتفاق کرلینا چاہیے کہ ہم اپنے جھگڑوں کو زمین پر ہی حل کریں گے۔ عالمی اتحاد میں جتنا پھنسے رہیں گے ہم اس کے منفی اثرات سے محفوظ نہیں رہ سکتے۔

پڑوس میں لگی آگ کو نہیں بھجایا تو وہ آگ ہمارے گھروں میں آگئی جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ ہمارا داخلی مسئلہ ہے تو میں ان کو کہتا ہوں مگر یہ بیرونی ایجنڈے کا حصہ ہے۔ پھر انہوں نے کہا کہ قبائلیوں کو مزید سزا نہ دی جائے اگر آپ کو ہماری شائستہ گفتگو قبول نہیں ہے پھر وہ وقت دور نہیں ہم اس زبان میں بات کریں گے جو آپ چاہتے ہیں ملک میں امن کی شمع بجھ نہ جائے اور اس کی جگہ آگ کے شعلے بلند نہ ہوں ہم اس ملک میں کسی کے غلام نہیں، میرے کابرین نے مجھے یہ درس دیا ہے کہ استعمار کے سامنے ڈٹ جاؤں، انہوں نے کہا کہ ہم قبائل سے باہر سے کسی قسم کا فیصلہ مسلط نہیں ہونے دیں گے۔

پہلے قبائل کو اطمینان کی زندگی دو پھر انہیں فیصلے کا اختیار دو۔ قبائل کی قسم پرسی کوئی فیصلہ نہیں ہونے دیں گے امن کے لئے ہماری جدوجہد جاری رہے گی ہمیں اگر کل کوئی سخت فیصلہ کرنا پڑے تو ہم پیچھے ن ہیں ہٹیں گے۔ 2008ء میں جس دلدل میں ہمیں دھکیلا گیا تھا آج تک نہیں نکل سکے ہر آپریشن میں کہا جاتا ہے کہ بس جی دہشت گردوں کا صفایا ہوگیا علاقہ کلیئر ہوگیا مگر کب تک یہ چلے گا ہم آپ کے سامنے روکاوٹ نہیں بنے مگر اس معاملے کو ختم بھی تو کرو، اسلام آباد میں ایک خاص صورتحال پیدا کی گئی جس سے سیلاب متاثرین اورشمالی وزیرستان متاثرین کا مسئلہ دنیا کی نظر سے اوجھل ہوگیا اور میڈیا نے بھی ان متاثرین سے نظریں پھیر لیں، جب متاثرین کی مدد کرنے کی ضرورت تھی تو اسلام آباد میں سیاسی بحران کی وجہ سے حکومت اور پارلیمنٹ دفاعی پوزیشن میں تھے پارلیمنٹ اپنے دفاع کی جنگ لڑنے میں مصروف تھی انہوں نے کہا کہ وانا میں اس وقت امن وامان ہے لیکن وہاں پر بھی پرامن قبائلیوں کو بے گھر کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں، شمالی وزیرستان کے قبائلیوں نے شدید گرمی کی حالت میں موسم کی سختیوں کا مقابلہ کیا اور اب سرد موسم شروع ہو چکا ہے یہ قبائلی متاثرین ملک کی سیاسی قیادت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ انہیں اپنے گھروں میں واپس بھیجا جائے وہ ٹینٹوں کی بجائے اپنے تباہ شدہ گھروں میں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں، مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ قبائلی جرگہ سے قبل سے باتیں ہو رہی تھی کہ فاٹا کو صوبہ بنایا جائے یا کے پی کے میں شامل کیا جائے ہم نے اس وقت بھی کہا تھا اور اب بھی کہتے ہیں کہ قبائل کو اختیار دیا جائے کہ وہ کیا چاہتے ہیں ، قوموں پر آفتیں زلزلے اور سیلاب آتے رہتے ہیں ۔

اور ان مصائب کا مقابلہ قوموں کے تعاون سے ہی کیا جاتا ہے ہم قبائلیوں کے ساتھ ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ شمالی وزیرستان کے متاثرین جلد از جلد واپس اپنے گھروں کو لوٹیں۔محمود خان اچکزئی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان ایک بہترین فیڈریشن بن سکتی ہے جس میں طاقت کا سرچشمہ پارلیمنٹ ہو، پاکستان بننے کے بعد بنگالیوں کو آئینی حقوق نہیں دیئے گئے جس کی وجہ سے وہ ہم سے جدا ہوگئے، قبائلیوں کو ان کے آئینی حقوق دیئے جائیں ایف سی آر کو ختم کیا جائے، قبائلی لوگوں کو ووٹوں کا حق دیا جائے باجوڑ سے لیکر جنوبی وزیرستان تک صوبہ یا قبائلستان بنایا جائے، پولیٹیکل سیکرٹری جس کا سیکرٹری ہو، اور گورنر ان کا منتخب کردہ ہو، فاٹا میں بدامنی کا اثرات، افغانستان، بلوچستان کے پی کے میں پڑھتے ہیں، اس لئے فاٹا کو نہ چھیڑا جائے، اور ازبک ، چیچن اور تاجر قبائل میں کیسے آئے، وہ قبائلیوں نے نہیں بلائے، وہ مہمان کے طور پر آئے تھے مگر مہمانوں کے سینگ نکل آئے ہیں، حکومت پاکستان ان ممالک سے بات کریں ، کہ وہ مہمانوں کو اپنے ملک واپس جانے دیا جائے اور وہاں کی حکومتیں ان کو گولی یا پھانسی نہ چڑھائے۔

انہوں نے کہا کہ قبائلی ایجنسیوں کے لوگ بھی وہی حق رکھتے ہیں جو سرائیکی، پنجابی، سندھی یا دیگر اقوام رکھتے ہیں ان کا کہنا تھا کہ اسفند یار ولی خان ، آفتاب خان شیر پاؤ اور مولانا فضل الرحمن پر ہونے والے حملوں میں سینکڑوں لوگ شہید ہوگئے لیکن آج تک پتہ نہیں چل سکا کہ یہ حملے کس نے اور کیوں کیے؟ عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفند یار ولی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ڈی چو ک میں کردار کی جنگ حسن اتفاق نہیں تھا، یہ کھیل اس لئے کھیلا گیا کہ دنیا کی نظر یں شمالی وزیرستان کے متاثرین سے ہٹا دی جائیں، میڈیا میں بھی شمالی وزیرستان کے متاثرین کے لئے بات نہیں ہوئی، متاثرین کے مسئلے سے وفاقی حکومت نے منہ موڑ لیا اور صوبائی حکومت نے بھی منہ موڑ لیا ہے، انہوں نے کہا کہ اقتدار کی لڑائی لڑتے رہیں، مگر اس اقتدار کو بانٹنے کی قیمت ہم سے وصول نہ کی جائے، خیبر 1آپریشن کے بعد جو لوگ بے گھر ہوئے ہیں ان کے لئے کوئی کیمپ نہیں بنایا جارہا ، انہیں کہا جارہا ہے کہ وہ اپنا انتظام خود کریں، کیا تم اس لئے بیٹھے ہوکہ پہلے تم گھر خالی کراؤ پھر تم ان پر بمباری کرو، ہم سوال کررہے ہیں کہ خالی بازاروں اور گھروں کو کیوں اڑایا گیا؟ کیا وہاں لگی ہوئی اینٹیں بھی دہشت گرد تھیں، انہوں نے کہا کہ فاٹا کے نظام کے مستقبل کے فیصلے کا اختیار عوام نے کرنا ہے، جو علاقے کلیئر ہو چکے ہیں ان میں لوگوں کو واپس کیوں نہیں جانے دیا جارہا۔

جب تک قبائلی عمائدین اور زعماء کو اعتماد میں نہیں لیں گے کسی صورت ان علاقوں میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔ میرے نزدیک دہشت گرد وہ ہے جو طاقت اور ڈنڈے کے ذریعے اپنی سوچ وفکر دوسرے پر مسلط کردے۔قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب احمد شیر پاؤ نے خطاب کرتے ہوئے کہا قبائلیوں کے مسئلے کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے سیاسی کشمکش کے سلسلے میں لاکھوں متاثرین بے یارومدد گار پڑے ہوئے ہیں، قبائلیوں کے پرامن گھروں میں واپسی تک ہم چین سے نہیں بیٹھیں گے۔

انہوں نے کہا کہ ایک سازش کے تحت ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے قبائلی مشیران کو نشانہ بنایا گیا تاکہ قبائلی عوام قیادت سے محروم ہو جا ئیں۔ انہوں نے کہا کہ قبائلی علاقوں کے مستقبل کا فیصلہ قبائلیوں کو دیا جائے۔ قبائلیوں کی صحیح تعداد کتنی ہے اس کی مردم شماری کرائی جائے۔ اور ان کی صحیح تعداد کے بعد ان کو ان کا حق دیا جائے۔ ہم قبائلیوں کا حق لے کر رہیں گے۔

متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما حیدر عباس رضوی نے خطاب کرتے ہوئے کہا پشتون قوم پر ساڑھے تین ہزار سال پر اتنا مشکل وقت نہیں آیاجتنا آج ہے۔ صبر کا ہر گز مطلب یہ نہیں کہ ظلم برداشت کرو، بلکہ صبر کا مطلب یہ ہے کہ اپنے موٴقف پر سختی سے قائم رہنا جس پرقبائلی عوام پورا اترتے ہیں پختون قوم ایک خانہ بدوش کی طرح زندگی گزارنے پر مجبور کردی گئی ہے۔

انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ اور استعماری طاقتوں کے پلان کے مطابق کچھ لوگوں کو استعمال کرکے پشتون علاقوں کو بدامنی کی نظر کردیا گیا ہے۔ پشتون قوم نے جس مقصد کے لئے قربانی دی ہے پورا پاکستان اس آگ میں جل رہا ہے۔ قبائلیوں کے فیصلے کا اختیاردیا اور مستقبل کے حوالے سے ان کی رائے لی جائے۔ ہم قبائلی صوبے کے حامی ہیں مگر قبائلیوں کی رائے مقدم ہے ۔

ڈپٹی پارلیمانی لیڈر قبائلی ممبران کے شاہ دی گل آفریدی نے خطاب کرتے ہوئے کہا یہ آج کا گرینڈ جرگہ نہیں ہے بلکہ قبائلیوں کا ریفرنڈم ہے۔ قبائلی علاقوں میں حکومت امن قائم کرے۔ ہمیں اپنے علاقوں میں واپس جانے کیلئے پرمٹ لینا پڑتا ہے ہم اس لیے چپ ہیں کہ ہم ایٹم بم اور ملک کو بچانا چاہتے ہیں اور ہم نے لاکھو ں لوگوں کی قربانی دے کر ملک کی بھی حفاظت کی ہے، قوم کی بھی حفاظت کی ہے اور ایٹم بم کی بھی حفاظت کی ہے۔

منتظم قبائلی جرگہ مفتی عبدالشکور نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قبائلی آپ سے کچھ نہیں چاہتے وہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ انہیں فی الفور اپنے گھروں میں بھیجا جائے۔ملک شاہ نواز خان چیئرمین قبائلی جرگہ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قبائلی پاکستان کی وہ فوج ہیں جو ملک کی سرحدات کی بلا معاوضہ حفاظت کرتے رہے ہیں۔ مگر ہر دور میں حکمرانوں کی طرف سے قبائلیوں پر مظالم کے پہاڑ شروع کردیئے حکومت پاکستان اور مقتدر قوتوں سے اپیل کرتا ہوں کہ قبائلی مسئلہ مذاکرات سے حل کرکے قبائلیوں کو واپس گھروں میں بھیجا جائے اور نقصان کا تخمینہ لگا کر معاوضہ قبائلی عمائدین کو دیا جائے۔

صدر گرینڈ جرگہ شمالی وزیرستان ملک خان مرجان اتمانزئی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں اندھیرے میں رکھا گیا ہے ہمیں تعلیم کی ضرورت ہے جب ہم کالج ویونیورسٹی کی بات کرتے ہیں تو پارلیمنٹ کے حضرات س میں لڑنا شروع ہو جاتے ہیں۔ تمام قبائلی ایجنسیوں میں یونیورسٹیاں اور ہسپتال قائم کئے جائیں حکومت فاٹا کے حوالے سے مختص 75ارب روپے کی رقم ضائع نہ کرے قبائلی عمائدین کی مشاورت سے یہ پیسے لگائے جائیں۔

قبائلیوں کے ساتھ مذاق نہ کیا جائے انہیں فی الفور اپنے گھروں میں جانے دیا جائے۔محسوس رہنما، بادشاہی خان نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے پاکستان کے لئے قربانیاں دی ہیں آئندہ بھی قربانیاں دیں گے عمران خان اگر کرسی کے لئے تین ماہ دھرنا دے سکتا ہے طاہر القادری پیسوں کیلئے 2ماہ دھرنا دے سکتا ہے۔ تو آئیں آپ بھی قبائلیوں کے ساتھ مل کر دھرنا دیں۔ انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم بنوں میں متاثرین کی امداد کے لئے کیمپ لگا سکتی ہے تو آپ پختون بتائیں کہ آپ نے ہماری امداد کے لئے کونسا کیمپ لگایا ہے۔