عدالتی فیصلے کے بعد حکومت کے پاس اور کوئی چارہ نہیں کہ شریک ملزمان کے نام مقدمے میں شامل کئے جائیں ،فیصل چوہدری

جمعہ 21 نومبر 2014 18:20

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ تاز ترین اخبار۔ 21نومبر 2014ء) خصوصی عدالت نے آل پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ اور سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے خلاف غداری کیس میں سابق وزیر اعظم شوکت عزیز، سابق وزیر قانون زاہد حامد اور سابق چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر کو شریک ملزم کے طور پر شامل کرنے کی درخواست منظور کرتے ہوئے وفاقی حکومت کو دو ہفتے میں نئی ترمیمی شکایت داخل کرانے کا حکم دیدیا۔

جمعرات کو جسٹس فیصل عرب، جسٹس طاہرہ صفدر اور جسٹس یاور علی پر مشتمل خصوصی عدالت نے سنگین غداری کیس میں پرویز مشرف کی شریک ملزمان کو مقدمہ میں شامل کرنے کی درخواست منظور کرنے کا فیصلہ سنایا۔ عدالت نے بیرسٹر فروغ نسیم کے ذریعے دائر درخواست پر وکلاء کے دلائل سننے کے بعد 31 اکتوبر کو فیصلہ محفوظ کیا تھا درخواست میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ صرف پرویز مشرف کے خلاف مقدمہ امتیازی سلوک ہے اسے ختم کیا جائے یا پرویز مشرف کے 600 سول و فوجی مددگاروں اور معاونین کو بھی شریک ملزمان کے طور پر شامل کیا جائے۔

(جاری ہے)

غداری کے مقدمے کے مرکزی ملزم پرویز مشرف کی طرف سے مقدمے کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت میں درخواست دائر کی گئی تھی جس میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ اْن کے خلاف مقدمہ ختم کیا جائے اور اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو پھر اْن افراد کو بھی شریک جرم کیا جائے جنھوں نے تین نومبر 2007 کو ایمرجنسی لگانے میں اْن کی معاونت کی تھی۔ان درخواستوں کی سماعت کے دوران جو شواہد عدالت میں پیش کیے گئے اْن میں سابق وزیر اعظم شوکت عزیز کے بارے کہا جاتا رہا کہ اْنھوں نے بطور وزیر اعظم اس وقت کے صدر اور آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کو ایمرجنسی لگانے کیلئے خط لکھا تھا جبکہ اْس وقت وفاقی وزیر قانون زاہد حامد نے قانونی رائے دی تھی اور ایمرجنسی کے بعد اْس وقت کے چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر نے ایمرجنسی لگانے کے اقدامات کو جائز قرار دیا تھا۔

عدالت نے درخواست کثرت رائے سے منظور کی عدالت نے وفاقی حکومت کو حکم دیا ہے کہ وہ سابق وزیراعظم شوکت عزیز، سابق وزیر قانون زاہد حامد اور سابق چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر کو بھی شریک ملزم بنا کر دو ہفتے میں نئی ترمیمی شکایت داخل کرے ۔عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ کور کمانڈروں، جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی، مسلح افواج کے سربراہوں اور چاروں گورنروں کو ملک میں ایمرجنسی کے بارے میں بریفنگ ضرور دی گئی تھی تاہم ان کا ایمرجنسی لگانے میں کوئی کردار نہیں تھا۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ وفاقی حکومت 15 روز میں ترمیم شدہ درخواست دوبارہ جمع کروائے اور اس ضمن میں سابق وز یر اعظم، وزیر قانون اور پاکستان کے سابق چیف جسٹس کے بیانات دوباہ قلم بند کیے جائیں اور ترمیم شدہ چالان عدالت میں جمع کروایا جائے۔تین رکنی خصوصی عدالت میں شامل جسٹس یاور علی نے اس فیصلے کے خلاف اختلافی نوٹ لکھا ہے جس میں انھوں نے کہا کہ ابھی تک ایسے شواہد نہیں ملے جن سے ظاہر ہوتا ہو کہ شوکت عزیز، عبدالحمید ڈوگر اور زاہد حامد کا ایمرجنسی لگانے کے فیصلے میں کوئی کردار رہا ہو۔

جسٹس یاور علی نے 5 صفحات پر مشتمل اختلافی نوٹ میں سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ دوران سماعت پرویز مشرف کے وکیل نے واضح طور پر کہا کہ پرویز مشرف نے بطور چیف آف آرمی سٹاف ایمرجنسی لگائی انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم نے آئین کی خلاف ورزی کی کوئی ایڈوائس نہیں دی تھی  اختلافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ ریکارڈ پر بھی ایسی کوئی شہادت موجود نہیں جس سے ثابت ہو کہ پرویز مشرف نے وزیراعظم شوکت عزیز کی ایڈوائس پر ایمرجنسی لگائی۔

گورنر خالد مقبول نیاپنے بیان میں کہا کہ ایمرجنسی کے نفاذ پر ان سے کوئی مشاورت نہیں کی گئی ہے۔ اختلافی نوٹ میں کہاگیاکہ پرویز مشرف کے وکلاء عدالت میں ایسا کوئی گواہ پیش نہیں کر سکے جس سے یہ ثابت ہو کہ سابق صدرمعصوم ہیں اور یہ فیصلہ کرنے میں کئی افرادنے ان کاساتھ دیا اس میں کوئی شک نہیں کہ ایمرجنسی کے نفاذ کے بعد وزیراعظم ، ارکان کابینہ، سینئر بیوروکریٹس اور پی سی او کا حلف لینے والے ججز نے اسے پورے دل سے قبول کیا۔

آئین کے آرٹیکل 48 کے تحت ایسی کوئی ایڈوائس اور شہادت سامنے نہیں آئی جس میں ایمرجنسی نافذ کرنے کا کہا گیا ہو۔ پرویز مشرف کے وکیل کے دلائل اس بات پر قائل نہیں کرسکے کہ دوبارہ تفتیش کا حکم دیا جا سکے۔کیس کی آئندہ سماعت 9 دسمبر کو ہو گی۔ سابق صدر کے وکیل فیصل چوہدری نے عدالت کے باہر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہاکہ عدالتی فیصلے کے بعد حکومت کے پاس اور کوئی چارہ نہیں کہ شریک ملزمان کے نام مقدمے میں شامل کئے جائیں۔

انہوں نے کہا کہ 3 نومبر کی ایمرجنسی کے اقدام کے حوالے سے درخواست میں کور کمانڈرز کے ناموں کا بھی ذکر کیا تھا تاہم عدالت نے انہیں شامل کرنا مناسب نہیں سمجھا۔یاد رہے کہ مقدمے میں شریک جرم کیے جانے والے تین افراد میں سے دو افراد اس وقت بیرون ملک ہیں ان میں سابق وزیر اعظم شوکت عزیز اور سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر شامل ہیں جبکہ زاہد حامد نے اپنی وزارت سے استعفیٰ دیدیا ہے ۔