وزیراعظم سمیت تمام حکومتی شخصیات سانحہ ماڈل ٹان کی جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے کے لئے تیار ہیں‘ اگر ڈاکٹر طاہرالقادری کو سانحہ ماڈل ٹان کی تحقیقات کرنے والی جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم پر اعتراض ہے تو وہ عدالت سے رجوع کریں،

سابق وزیر قانون پنجاب رانا ثنا اللہ خان کاانٹر ویو

جمعرات 20 نومبر 2014 23:17

وزیراعظم سمیت تمام حکومتی شخصیات سانحہ ماڈل ٹان کی جے آئی ٹی کے سامنے ..

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔20نومبر 2014ء) سابق وزیر قانون پنجاب رانا ثنا اللہ خان نے کہا کہ وزیراعظم نواز شریف اور وزیر اعلی پنجاب سمیت تمام حکومتی شخصیات سانحہ ماڈل ٹان کی جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے کے لئے تیار ہیں‘ اگر ڈاکٹر طاہرالقادری کو سانحہ ماڈل ٹان کی تحقیقات کرنے والی جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم پر اعتراض ہے تو وہ عدالت سے رجوع کریں۔

اپنے ایک انٹر ویو میں رانا ثناء اللہ خان نے کہا کہ حکومت سانحہ ماڈل ٹان کی شفاف اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کے لئے پرعزم ہے۔ وزیراعظم نواز شریف اور وزیر اعلی پنجاب سمیت تمام حکومتی شخصیات سانحہ ماڈل ٹان کی جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے کے لئے تیار ہیں، حکومت نے رزاق چیمہ کو جے آئی ٹی کا سربراہ مقرر کیا ہے، ان کی مدت ملازمت کا دو تہائی دورانیہ سندھ میں فرائض انجام دیتے ہوئے گزرا ہے اور کوئی بھی شخص ان کے پیشہ وارانہ کیرئیر پر سوال نہیں اٹھاسکتا۔

(جاری ہے)

اس کے باوجود دھرنا سیاست کرنے والے جس کا دل چاہتے ہیں اس کے خلاف بیان داغ دیتے ہیں، اڈاکٹر طاہرالقادری کو سانحہ ماڈل ٹان کی تحقیقات کے لئے تشکیل دی گئی جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم پر اعتراض ہے تو وہ عدالت سے رجوع کریں۔رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا کہ سانحہ ماڈل ٹان کی تحقیقات کرنے والے جوڈیشنل کمیشن کی رپورٹ کے کچھ حصے ایسے ہیں جن کے منظر عام پر آنے سے فرقہ واریت کو ہوا مل سکتی ہے۔

پنجاب حکومت نے لاہور ہائیکورٹ کے 3 رکنی بینچ کے سامنے اس رپورٹ کے علاوہ اس پر نظرثانی کرنے والے بورڈ کی رپورٹ بھی پیش کی ہے۔ اگر عدالت نے ہماری درخواست مسترد کردی تو اسے جاری کردیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر طاہر القادری کہتے ہیں کہ حکومت نے توقیر شاہ کو سانحہ ماڈل ٹان کے وعدہ معاف گواہ بنے سے روکنے کے لئے رشوت کے طور پر سفیر بنادیا حالانکہ توقیر شاہ کا نام ان کی اپنی جانب سے دائر ایف آئی آر میں درج ہی نہیں۔ ڈاکٹر طاہر القادری سانحہ ماڈل ٹان پر سیاست بنہ کریں، اگر انہوں نے ایسا نہ کیا تو اس کا جواب بھی سیاست سے ہی آئے گا۔