18 ویں سارک سربراہ کانفرنس کے دوران کھٹمنڈو میں پاک بھارت وزرائے اعظم و دیگر حکام کی ملاقات کا کوئی امکان نہیں‘ دوران کانفرنس بھارت کی وزیراعظم کو بلٹ پروف گاڑی فراہم کرنے کی پیشکش نہیں ہوئی‘ وزیراعظم سارک سربراہ کانفرنس میں بھارت کے لائن آف کنٹرول اور بین الاقوامی سرحد کی مسلسل خلاف ورزی کامعاملہ نہیں اٹھائیں گے‘ سارک چارٹر کے مطابق ممبر ممالک متنازعہ معاملات نہیں اٹھاسکتے‘ افغان صدر کا دورہ کافی مثبت رہا جس میں مشترکہ فیصلے ہوئے ،

دفتر خارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم کی صحافیوں کو ہفتہ وار بریفنگ

جمعرات 20 نومبر 2014 20:41

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔20نومبر 2014ء) دفتر خارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم نے کہا ہے کہ 18 ویں سارک سربراہ کانفرنس کے دوران کھٹمنڈو میں پاک بھارت وزرائے اعظم و دیگر حکام کی ملاقات کا کوئی امکان نہیں‘ دوران کانفرنس بھارت کی جانب سے وزیراعظم نواز شریف کو بلٹ پروف گاڑی فراہم کرنے کی پیشکش نہیں ہوئی‘ وزیراعظم نواز شریف سارک سربراہ کانفرنس میں بھارت کی جانب سے لائن آف کنٹرول اور بین الاقوامی سرحد کی مسلسل خلاف ورزی کامعاملہ نہیں اٹھائیں گے‘ سارک چارٹر کے مطابق ممبر ممالک متنازعہ معاملات نہیں اٹھاسکتے‘ افغان صدر کا دورہ کافی مثبت رہا جس میں مشترکہ فیصلے ہوئے۔

وہ جمعرات کو یہاں ہفتہ وار میڈیا بریفنگ میں سوالوں کے جواب دے رہی تھیں۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ دفتر خارجہ پہلے ہی اس بات کی وضاحت کرچکا ہے کہ 18 ویں سارک سربراہ کانفرنس جوکہ 26,27 نومبر کو نیپال کے دارالحکومت کھٹمنڈو میں ہونے جارہی ہے جس میں تمام ممبر ممالک کے سربراہان کو سیکیورٹی فراہم کرنے کی ذمہ داری میزبان ملک کی ہے اس حوالے سے کئی بے بنیاد افواہیں پھیلائی گئیں حالانکہ نہ تو بھارت نے سارک سربراہ کانفرنس کے دوران وزیراعظم نواز شریف کو بلٹ پروف گاڑی فراہم کرنے کی پیشکش کی اور نہ ہی ہم نے اسے مسترد کیا۔

ایک سوال کے جواب میں ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ 18 ویں سارک سربراہ کانفرنس کے دوران وزیراعظم نواز شریف کی میزبان ملک کے صدر کیساتھ ملاقات کا شیڈول آچکا ہے تاہم ان کی بھارتی وزیراعظم سے ملاقات اور دیگر پاکستانی حکام کی بھارتی حکام کیساتھ کسی بھی سطح کی ملاقات کا کوئی امکان نہیں۔ سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کے چیئرمین کی جانب سے پاک بھارت سرحد کا دورہ کرنے کے بعد بھارتی جارحیت کا معاملہ سارک سربراہ کانفرنس میں اٹھانے بارے سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ سارک چارٹر میں ممبر ممالک کے تنازعات اٹھانے کی گنجائش نہیں لہٰذا وزیراعظم نواز شریف ایل او سی اور بین الاقوامی سرحد پر بھارتی جارحیت کا معاملہ نہیں اٹھائیں گے۔

ایک اور سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کے فوجی مبصر گروپ نے ایل او سی اور پاک بھارت سرحد پر گذشتہ دنوں فائرنگ کے واقعات کی رپورٹ سیکرٹری جنرل بانکی مون کو بھجوادی ہے اس بارے میں جلد ہی اقوام متحدہ میں پاکستانی مندوب کو آگاہ کردیا جائے گا۔ انسٹیٹیوٹ برائے اکنامکس اینڈ پیس کی جانب سے پاکستان کو دہشت گردی کے حوالے سے دنیا بھر میں تیسرا ملک قرار دینے پر سوال کے جواب میں تسنیم اسلم نے کہا کہ پاکستان میں 55 ہزار افراد دہشت گردی کا نشانہ بن چکے ہیں جبکہ دہشت گردی کی بنیادی وجہ گذشتہ تیس برسوں میں خطے کے اندر پیش آنے والے واقعات ہیں۔

افغان صدر کے حالیہ دورہ پاکستان بارے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ یہ دورہ کافی مثبت رہا جس میں مجموعی طور پر تجارت‘ معیشت اور عوام سے عوام کیساتھ رابطوں سمیت مختلف شعبوں سے متعلق 42 فیصلے ہوئے جبکہ کاسا 1000 پراجیکٹ کے حوالے سے پہلے معاہدہ ہوچکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان ایک پرامن اور مستحکم افغانستان دیکھنا چاہتا ہے۔ ہم نے اس حوالے سے تین ہزار افغان طلباء و طالبات کو سکالرشپ دینے کی پیشکش بھی کی ہے۔