سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے بین الصوبائی رابطہ کا صحت ، تعلیم اور دیگر محکموں میں درپیش مسائل پر شدید تشویش کا اظہار

جمعرات 20 نومبر 2014 16:47

اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ تاز ترین اخبار۔ 20نومبر 2014ء ) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے بین الصوبائی رابطہ نے اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد سے صحت ، تعلیم اور دیگر محکموں میں درپیش مسائل پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اٹھارویں ترمیم کی کچھ شقوں پر نظر ثانی کی اہمیت پر زور دیا اور کہا کہ کوئی کام حرف آخر نہیں ہوتا ، ترمیم کو ان کا مسئلہ نہ بنایا جائے ، سینیٹ اور قومی اسمبلی الگ الگ ترمیم پر نظر ثانی کیلئے کام کریں ، کمیٹی نے چاروں صوبوں سے 7 ویں این ایف سی ایوارڈ کی وصولی میں درپیش مسائل کی تمام تفصیلات طلب کرلی۔

کمیٹی کو بتایا گیا کہ بلوچستان اور سندھ کی صوبائی حکومتیں مردم شماری کے انعقاد کیلئے تیار نہیں ، وفاقی وزیر برائے بین الصوبائی رابطہ ریاض حسنین پیرزادہ نے کمیٹی اجلاس میں اپنی بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وزارت کے احکامات کوئی ادارہ نہیں مان رہا ، ڈیڑھ برس سے سی سی آئی کے سیکرٹریٹ کیلئے جگہ مانگ رہے ہیں لیکن نہیں دی جارہی ہے ، ایسا محسوس ہوتا ہے وزیراعظم طاقتور وزارت بننے کی وجہ سے اختیارات نہیں دے رہے ، اگر میں قابل اعتبار اور قابل نہیں تو کسی اور کو وزارت دی جائے ، کمیٹی نے کہا کہ اگر حکومت وزارت کو اختیارات نہیں دے سکتی تو اسے ختم کردے۔

(جاری ہے)

کمیٹی کا اجلاس جمعرات کو سینیٹر فرح عاقل کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا ۔ اجلاس میں ارکان کمیٹی ، وفاقی وزیر ریاض حسنین پیرزادہ، سیکرٹری اعجاز چوہدری سمیت وزارت کے اعلیٰ حکام نے شرکت کی ۔ اجلاس میں سیکرٹری وزارت اعجاز چوہدری نے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ یکساں نصاب تعلیم کی تشکیل ہم نہیں دے سکتے ، اس حوالے سے چاروں صوبوں کے وزارء اعلیٰ اور چیف سیکرٹریز کو خط لکھ رہے ہیں ، اجلاس میں وفاقی وزیر برائے بین الصوبائی رابطہ ریاض حسنین پیرزادہ نے کہا کہ مشترکہ مفاداتی کونسل کا سیکرٹریٹ نہ ہونے کی وجہ سے شدید مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ، قواعد و ضوابط کے مطابق یہ وزارت مضبوط ترین ہے لیکن اختیارات کی منتقلی نہ ہونے کی وجہ سے اب بے کار ہوگئی ہے ، کوئی ادارہ ہمارے احکامات پر عمل نہیں کرتا ، وزیراعظم کو متعدد بار کہا کہ 6 نئے بنائے گئے بلاکس میں سے ایک سی سی آئی کے سیکرٹریٹ کو دیا جائے لیکن نہیں دیا جارہا ، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وزیراعظم کو مجھ پر اعتبار نہیں کیونکہ یہ وزارت بہت مضبوط ہے ، اگر میرے پاس اختیارات آنے کا خوف ہے تو وزیراعظم اپنے کسی قابل اعتبار وزیر کو یہ وزارت دے دیں تاکہ عرصے سے مردم شماری سمیت دیگر اہم ایشوز حل ہوسکیں ۔

کمیٹی نے اس تمام تر صورتحال پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر ایسا رہا تو معاملات خراب ہوجائیں گے ، پہلے ہی سندھ نے الگ پی ایم ڈی سی بنایا ہوا ہے ، اسی طرح خیبرپختونخوا بھی بنانا چاہتا ہے ، اگر اٹھارویں ترمیم کی وجہ سے مسائل ہورہے ہیں تو اس پر نظر ثانی کی جائے ، اگر حکومت وزارت کو اختیارات نہیں دینا چاہتی تو اسے ختم کردے ۔ اجلاس میں رکن کمیٹی پروین کلثوم نے انکشاف کیا کہ ملک میں جاری بدامنی کی وجہ سے 28 ملٹی نیشنل کمپنیاں اپنا کاروبار پاکستان سے بھارت منتقل کررہی ہیں ، یہ مذکورہ کمپنیاں سالانہ ڈیڑھ ارب روپے کا ٹیکس ادا کرتی ہیں ، انہوں نے کہا کہ بلوچستان کو وفاق سے بے تحاشہ مسائل کا سامنا ہے ، بلوچستان کو گیس کا حصہ نہیں دیا جارہا ہے ، کمیٹی نے چاروں صوبوں کے وزراء اعلیٰ اور چیف سیکرٹریز سے ساتویں این ایف سی ایوارڈ کی وصولی سے درپیش مسائل کی تفصیلات مانگنے کیلئے خط لکھنے کا فیصلہ کرلیا ہے ۔

اجلاس کو مردم شماری کے انعقاد کے حوالے سے بریفنگ دیتے ہوئے سیکرٹری اعجازچوہدری نے کہا کہ وزیراعظم مردم شماری کے انعقاد کیلئے محنت کررہے ہیں لیکن بلوچستان اور سندھ حکومت اس کے انعقاد کیلئے تیار نہیں ہیں

متعلقہ عنوان :