پاکستان میں سرمایہ کاری کیلئے ماحول انتہائی سازگار ہے ‘ کاروبار جمانے میں کسی قسم کی مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑیگا ‘وزیراعظم

منگل 11 نومبر 2014 13:39

پاکستان میں سرمایہ کاری کیلئے ماحول انتہائی سازگار ہے ‘ کاروبار جمانے ..

برلن (اُردو پوائنٹ تاز ترین اخبار۔ 11نومبر 2014ء) وزیر اعظم محمد نوازشریف نے کہا ہے کہ پاکستان میں سرمایہ کاری کیلئے ماحول انتہائی سازگار ہے ‘ پاکستان میں کاروبار جمانے میں کسی قسم کی مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑیگا ‘غیر ملکی سرمایہ کار اپنا منافع واپس لے جا سکتے ہیں ‘اہلیت اور شفافیت حکومت کا طرہ امتیاز ہے ‘جرمن سرمایہ کاروں کی سرمایہ کاری سے دو طرفہ تجارت بھی بڑھے گی ‘دیامر بھاشا ڈیم اور داسو سے تقریباً 9ہزارمیگاواٹ بجلی کی پیداوار حاصل ہوگی ‘ پاکستان کو جی ایس پی پلس کا درجہ دلوانے میں جرمنی کی حکومت کے تعاون کے مشکور ہیں ‘افغانستان کی نئی قیادت کے ساتھ قریبی رابطہ استوار کئے ہوئے ہیں ‘ ایران اور چین کے ساتھ اپنے تعلقات کو علاقائی سلامتی اور ترقی کیلئے مضبوط بنا رہے ہیں ‘ہمارے خطے کا مستقبل روشن ہے ۔

(جاری ہے)

برلن میں انوسٹمنٹ فورم سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہاکہ پاکستان میں نجکاری اورسرمایہ کاری کا عمل نہ صرف صاف اور شفاف بلکہ عالمی بہترین معیارات کے مطابق ہوگا۔انھوں نے کہا کہ پاکستان کا شمار دنیا کے سب سے زیادہ سرمایہ کار دوست ممالک میں ہوتا ہے جہاں تمام شعبوں میں غیر ملکی سرمایہ کاری کے مواقع موجود ہیں جن سے غیر ملکی سرمایہ کار استفادہ کر سکتے ہیں، توانائی کا شعبہ ہماری سب سے بڑی ترجیح ہے، ہماری اس جانب سب سے زیادہ توجہ ہے، جرمنی سے پاکستان اور یورپی یونین کے مابین آزاد تجارت کے معاہدہ کیلئے تعاون کے خواہاں ہیں، پاکستان پر سرمایہ کاروں کے اعتماد میں اضافہ ہوا، آئندہ سالوں میں پاکستان ترقی کی جانب تیزی سے گامزن ہوگا۔

وزیراعظم محمدنوازشریف نے کہا کہ ہم 100فیصد فارن اونرشپ کی اجازت دیتے ہیں اورمنافع ، ڈیویڈنٹس اوردوسرے فنڈزکومتعلقہ ملک کی کرنسی میں باہرلے جانے کی کوئی حدمقررنہیں کی گئی۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان چاہتا ہے کہ توانائی، انفراسٹرکچرڈویلپمنٹ ، فوڈ، فارما سوٹیکل ، کیمیکلز، انجینئرنگ ، زراعت پرمنحصرانڈسٹری ، مائننگ اورتیل وگیس کی تلاش کے شعبہ میں غیرملکی براہ راست سرمایہ کاری میں اضافہ ہو۔

انھوں نے کہا کہ مجھے اس تاریخی شہر میں آ کر اور ممتاز کاروباری شخصیات کے اجتماع سے خطاب کا موقع ملنے کی بہت خوشی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے جرمنی کے ساتھ خصوصی تعلقات ہیں، پاکستان اور جرمنی کے مابین 1959ء میں ہونے والا دوطرفہ سرمایہ کاری کا معاہدہ دنیا میں کسی بھی دو ملکوں کے مابین اپنی نوعیت کا پہلا معاہدہ تھا۔ دونوں ممالک کے درمیان ترقی کے لئے تعاون کا سفر 1961ء سے شروع ہوا اور ہمارے درمیان باہمی اشتراک کار آنے والے عشروں میں پروان چڑھا۔

آج جرمنی عالمی سطح پر پاکستان کا چوتھا اور یورپی یونین میں سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے۔ انہوں نے کہا کہ جرمنی میں مقیم 70 ہزار سے زائد پاکستانی تارکین وطن اور جرمنی کی یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم 2300 پاکستانی ہمارے دوطرفہ تعلقات کو مضبوط بنا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں اس موقع پر پاکستان کو جی ایس پی پلس کا درجہ دلوانے میں جرمنی کی حکومت کے تعاون پر شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔

انہوں نے اس توقع کا اظہار کیا کہ جرمنی پاکستان اور یورپی یونین کے مابین آزاد تجارت کے معاہدہ کیلئے بھی پاکستان کی حمایت کرے گا جس سے ہمیں یقین ہے کہ دونوں اطراف کو فائدہ پہنچے گا۔ انہوں نے کہا کہ کاروباری اور سرمایہ کاری کانفرنسوں کا انعقاد اور جرمن ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ اکانومی (گیٹ) کا قیام اچھی پیشرفت ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں توقع ہے پاکستان جرمن بزنس فورم ایک دوطرفہ چیمبر آف کامرس بنے گا۔

ہم جرمن چیمبر آف کامرس کا پاکستان میں دفتر قائم کرنے اور دوطرفہ سرمایہ کاری معاہدہ کے نفاذ کی راہ بھی تک رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان 18 کروڑ صنعتی اور انٹرپرائزنگ افراد کا ملک ہے جو مشترکہ اہداف کے حصول کے لئے دنیا کے ساتھ قدم ملا کر چلنے کے لئے تیار ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب سے میری حکومت نے اقتدار سنبھالا ہم عدم مداخلت اور تعمیری انداز اختیار کرنے کی اپنی پالیسی کے ذریعے پاکستان کے ارد گرد پرامن ہمسائیگی کے وژن کی طرف تیزی سے آگے بڑھے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنے تمام ہمسائیوں کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے، اسی جذبہ کے تحت میں نے رواں سال کے آغاز میں بھارت کا دورہ کیا اور نئے منتخب بھارتی وزیراعظم کی تقریب حلف برداری میں شرکت کی۔ انہوں نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ ہمارے اس جذبہ کا مثبت جواب نہیں دیا گیا تاہم ہم اپنے مثبت طرز عمل پر قائم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم افغانستان کی نئی قیادت کے ساتھ قریبی رابطہ استوار کئے ہوئے ہیں جبکہ ہم ایران اور چین کے ساتھ اپنے تعلقات کو علاقائی سلامتی اور ترقی کے لئے مضبوط بنا رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ مجھے یقین ہے کہ ہمارے خطے کا مستقبل روشن ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی وسط، جنوبی اور مغربی ایشیاء کو ملانے والی لوکیشن علاقائی اور عالمی امن اور خوشحالی کے لئے لامحدود امکانات کی حامل ہے۔ ہم اپنی اس وسیع صلاحیت کو حقیقت کا روپ دینا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اپنے شمالی، مشرقی اور مغربی ہمسایوں کے مابین تجارت اور توانائی کا راستہ ہے جو تجارتی گذرگاہوں، تیل و گیس پائپ لائنوں اور پاور ٹرانسمیشن لائنوں کے ذریعے خطوں کو ملاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم قدرتی طور پر تمام اقتصادی سرگرمی کا علاقائی مرکز ہیں، ہمارے پاس افرادی قوت سمیت ضروری انفراسٹرکچر موجود ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سڑکوں اور ریلویز کے نیٹ ورک کو توسیع دیتے ہوئے رابطوں اور کارکردگی کو بہتر بنایا جائے اور پاکستان پاکستان بھر میں کمیونیکیشن انقلاب کے ثمرات سے فائدہ اٹھایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ میری حکومت کو چیلنجنگ میکرو اکنامک صورتحال ورثہ میں ملی تاہم گزشتہ 16 ماہ کے دوران ہم پاکستان کی معیشت کو بہتر بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں اور یہ ایک جامع میکرو اکنامک پروگرام، محاصل میں اضافے، اخراجات پر کنٹرول اور مالی خسارہ میں کمی کے ذریعے ممکن ہوا۔

انہوں نے کہا کہ وہ یہ بات بتاتے ہوئے خوشی محسوس کر رہے ہیں کہ پاکستان کی مجموعی ملکی پیداوار کی شرح 4.1 فیصد تک بڑھ چکی ہے، مالی خسارہ 5.2 فیصد ہے جبکہ ترسیلات زر میں اضافہ دس فیصد سے تجاوز کر گیا ہے اور برآمدات میں بہت بہتری آئی ہے، ہمارے ٹیکسوں کی وصولی میں 16 فیصد تک اضافہ ہوا ہے اور افراط زر میں کمی ہوئی ہے۔ بڑے پیمانے پر مینوفیکچرنگ میں بھی خاصی بہتری آئی ہے، نجی شعبے کے لئے قرضوں میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے کیونکہ حکومت کے اپنے قرضوں میں نمایاں کمی کی ہے۔

دنیا کی چند ایک بہترین منڈیوں کی کارکردگی کے تناظرمیں کراچی سٹاک ایکسچینج کے ساتھ پاکستان کے کیپٹل مارکیٹ کا منظرنامہ مثبت ہے ۔آج ہی کے دن مارکیٹ میں 351پوانٹس کا اضافہ ریکارڈکیا گیا جوہماری معیشت پرمقامی اورعالمی سرمایہ کاروں کے بڑھتے ہوئے اعتماد کی عکاس ہے۔ ہم آئندہ سالوں میں پاکستان کو ترقی کی جانب بڑھتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ ہم اپنا ترقی کی جانب یہ سفر جاری رکھیں گے۔

انہوں نے کہا کہ داخلی و بین الاقوامی منڈیوں کی طرف سے ہماری اقتصادی مینجمنٹ پر کیا گیا اعتماد ہمارے اعتماد میں اضافہ کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میری حکومت نے مستقبل میں ترقی کے لئے بہت سوچ بچار کے بعد ایک جامع پروگرام مرتب کیا ہے جسے وژن 2025ء کا نام دیا گیا ہے۔ اس پروگرام کا مقصد آئندہ سالوں میں پاکستان کو عالمی سطح پر خوشحال اور مقابلے کے قابل ملک بنانا ہے جو صنعت اور علم کی بنیاد پر زیادہ آمدنی والا ملک بن سکے۔

ہمارا وژن میکرو اکنامک استحکام کا حصول، اقتصادی ترقی کی بحالی، غربت میں کمی اور گورننس کو بہتر بنانا ہے۔ ہم وسیع پیمانے پر ادارہ جاتی اصلاحات کے لئے اقدامات کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مجھے یقین ہے کہ انٹرپرینیورشپ اور نجی شعبہ کی ترقی کے ذریعے پاکستان اقتصادی خوشحالی کی شاہراہ پر گامزن ہوگا۔ ہماری حکومت پاکستان میں کاروبار اور منصوبوں کو وسعت دینے کے لئے نجی شعبہ کو سہولت فراہم کرنے کو بہت اہمیت دیتی ہے۔

میری حکومت کے پاس ایک پرامید نجکاری پروگرام ہے جس کا ہدف منیجمنٹ سے نجی شعبہ کوریگولیشن کے کردارکومنتقل کرنا ہے۔میں آپ سب کونجکاری کے عمل میں شرکت کی دعو ت دیتا ہوں جوشفاف ، بہترین عالمی اعمال کے عین مطابق ہوگا۔ آج ہمارے پاس بینکنگ اور ٹیلی کمیونیکیشن کے شعبوں میں ابھرتی ہوئی نجی مارکیٹیں ہیں۔ انہوں نے انوسٹمنٹ فورم کے شرکاء کو پاکستان میں نجکاری کے عمل میں حصہ لینے کی دعوت دی اور کہا کہ یہ عمل شفاف اور بین الاقوامی معیارات کے مطابق ہوگا۔

وزیراعظم نے کہا کہ توانائی کا شعبہ ہماری سب سے بڑی ترجیح ہے اور ہماری اس جانب سب سے زیادہ توجہ ہے۔ ملک میں اس وقت تک بامعنی ترقی نہیں ہو سکتی جب تک ہم توانائی کی قلت کے مسئلہ سے موثر طور پر نہیں نمٹتے اس لئے ہم موجودہ پاور پلانٹس کی استعداد بہتر بنانے ، پاورجنریشن اورڈسٹریبیوشن کے مسائل کے خاتمہ پرتوجہ دے رہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ اس کے ساتھ ساتھ ہم نے پانی، کوئلہ، شمسی اور ہوا سمیت تمام دستیاب ذرائع سے بجلی کی پیداوار کے جامع پروگرام شروع کئے ہیں۔

اس سلسلے میں انہوں نے 4500 میگاواٹ کے دیامر ۔ بھاشا ڈیم اور 4320 میگاواٹ کے داسو پاور پراجیکٹ کے دو اہم ہائیڈل منصوبوں کا خاص طور پر ذکر کیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہم کراچی کے نواح گڈانی میں 10 کوئلہ سے چلنے والے پاور پلانٹس پر کام کر رہی ہیں جن میں سے ہر ایک 660 میگاواٹ کا ہوگا۔ اس کے علاوہ کراچی میں پورٹ قاسم پر کوئلہ سے چلنے والے 660 میگاواٹ کے دو اور پنجاب میں 660 میگاواٹ کے چار منصوبوں پر کام کیا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ بہت سے شمسی اور ہوا سے بجلی پیدا کرنے والے منصوبے زیر عمل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم پرامید ہیں کہ آئندہ تین سے چار سالوں میں ان منصوبوں سے نیشنل گرڈ میں 10 ہزار میگاواٹ اضافی شامل کئے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ 2018ء تک ہم 25 ہزار میگاواٹ کی آپریشنل گنجائش چاہتے ہیں جو 2025ء تک 35 ہزار میگاواٹ تک ہو جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ وہ پرامید ہیں کہ آئندہ چند سالوں کے دوران ہم تقسیم کے نظام کو بہتر بنانے اور اضافی پیداواری گنجائش کے ذریعے اس مسئلہ پر قابو پا لیں گے۔

وزیراعظم نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ بجلی پیدا کرنے والی تمام کمپنیاں نیشنل ایکسچینج کو اپنی بجلی فروخت کریں جہاں سے مختلف مقامی نجی تقسیم کار کمپنیاں اپنے صارفین کو سپلائی کے لئے توانائی خریدیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کا قیمتیں مقرر کرنے اور مسلسل سپلائی کو یقینی بنانے میں کردار محدود ہوگا، مناسب ٹیکنالوجی، فیول اور لوکیشنز کا تعین مارکیٹ پر منحصر ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ یہ وہ ماڈل ہے جس پر بہت سے ملکوں میں کامیابی سے عمل ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کا شمار دنیا کے سب سے زیادہ سرمایہ کار دوست ممالک میں ہوتا ہے جہاں تمام شعبے غیر ملکی سرمایہ کاری کے لئے کھلے ہیں اور زیادہ سے زیادہ غیر ملکی ایکویٹی کی کوئی حد مقرر نہیں۔ انہوں نے کہا کہ میری حکومت نے اسپیشل اکنامک زونز میں سرمایہ کاروں کیلئے خصوصی مراعات کا اعلان کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ غیر ملکی سرمایہ کار اپنی سرمایہ کاری کا بہتر منافع حاصل کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم توانائی، انفراسٹرکچر کی ترقی، زراعت، زرعی صنعت، کان کنی اور تیل و گیس کی دریافت میں غیر ملکی سرمایہ کاری کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جرمنی، پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے والا بڑا ملک ہے۔ بہت سی بڑی جرمن کمپنیوں نے پاکستان میں بڑی سرمایہ کاری کی ہے جن میں مرک، ہوچسٹ، بایئر، بی اے ایس ایف، سیمنز اورمیٹروقابل ذکرہیں۔

جرمنی کے چھوٹے اوردرمیانے درجے کے سرمایہ کاروں کی دلچسپی سے نہ صرف ہماری تجارت کا حجم بڑھے گا بلکہ اس سے دونوں ممالک کو فائدہ بھی ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت شفافیت اور میرٹ کو یقینی بنائے گی اور جرمن سرمایہ کاروں کے ساتھ بھرپور تعاون کرے گی اور انہیں پاکستان میں کاروبار جمانے میں کسی قسم کی مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔انھوں نے کہا کہ ہم توانائی کی پیداوارکیلئے مختلف ذرائع استعمال کررہے ہیں ، ہائیڈرل اورایل این جی پرمشتمل توانائی کے ذرائع تمام صوبوں میں شروع کئے جارہے ہیں ۔

پورٹ قاسم میں پاکستان کا پہلا ایل این جی ٹرمینل آخری مراحل میں ہے یہ ٹرمینل مارچ 2015میں فنکشنل ہوگا جس سے ہمارے صنعتی شعبہ کوگیس کی فراہمی ممکن ہوسکے گی۔اس کے بعدکراچی اورگوادرمیں دسمبر2015 تک مزید تین ٹرمینل قائم کئے جائیں گے۔

متعلقہ عنوان :