مزاحمتی گروپوں کومذاکرات کی میز پر لانے کیلئے کوششیں جاری ہے،،ڈاکٹرعبدالمالک

جمعہ 31 اکتوبر 2014 23:08

کوئٹہ(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔31اکتوبر۔2014ء)وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ نے کہاہے کہ بلوچ قوم کی تاریخ ہے کہ ان کی مسلح جدوجہد بھی رہی ہے اوربات چیت کاعمل بھی موجود ہے بلوچ کے قومی سوال قومی تشخص اورساحل وسائل کے حصول کیلئے مزاحمتی گروپوں کومذاکرات کی میز پر لانے کیلئے کوششیں جاری ہے تاحال اس میں کامیابی حاصل نہیں ہوئی کیونکہ یہ مسائل مذاکرات کے ذریعے سیاسی طورپرحل ہونگے حکومت نے اپنے ڈیڑھ سالہ دوراقتدارمیں صوبے میں قیام امن کویقینی بنانے کے ساتھ ساتھ قومی شاہراہوں کو محفوظ بناکرمسلح گروہوں سے عوام کو نجات دلائی ہے گزشتہ بارہ سالوں کے وسائل ڈیڑھ سال میں حل نہیں ہوسکتے اس کیلئے وقت درکارہوگاان خیالات کااظہارانہوں نے نجی ٹی وی چینل سے گفتگوکرتے ہوئے کیاانہوں نے کہاکہ بلوچستان کے عوام سائکلون کی زد میں بھوک افلاس کی صورت میں رہتے ہیں اوربلوچستان میں سونامی کاکوئی وجود نہیں اورنہ ہی کوئی خطرہ ہے بلوچستان میں قحط سالی کامسئلہ درپیش ہے اورگزشتہ کئی سالوں سے خشک سالی کی زد میں ہیں بلوچستان کوان مسائل سے چھٹکارادلانے کیلئے بلوچستان کے وسیع عریض رقبے میں سیلابی پانی کوضائع ہونے سے بچانے کیلئے ڈیمز کی ضرورت ہے تاکہ اس پانی کو زراعت لائیواسٹاک کے شعبے کو فروغ دیاجاسکے ہم اپنے وسائل خرچ کررہے ہیں اوروفاق سے درخواست کی ہے کہ بلوچستان میں ضائع ہونے والے پانی کو بچانے کیلئے اقدامات کریں تاکہ خشک سالی سے بچاجاسکے ورناخطے میں آنے والی ماحولیاتی تبدیلیاں ہمیں بری طرح متاثرکریں گی ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ ہمیں مشکلات ہیں انہیں ڈیڑھ سال کے عرصے میں ختم نہیں کیاجاسکے کیونکہ اقتدارمیں آنے کے بعد ہم نے امن وامان کی بحالی اور تعلیم پر خصوصی توجہ دی اور بلوچستان میں سیلابی پانی وافر مقدار میں ضائع ہو رہا ہے اگر اس پانی کو محفوظ کیا جائے تو ڈھائی کروڑ ایکڑ زیر کاشت اراضی کو استعمال میں لاکر فعال بنایا جاسکتاہے ہم نے انرجی کے بحران پر قابو پانے کیلئے اقدامات کئے گئے گزشتہ چھ 7 دہائیوں سے بلوچستان کو 6 سو میگاواٹ بجلی دی جارہی تھی جبکہ ہماری ضرورت 15 سو میگاواٹ تھی ہم نے جنگی بنیادوں پر وفاق کی مدد سے اس مسئلے پر کام کرکے دو ٹرانسمیشن لائنوں پر توجہ دی دادو خضدار لورالائی ڈی جی خان کو مکمل کیا جبکہ اوچ ٹو کے منصوبے کو بھی پایہ تکمیل تک پہنچایا گیا اس سے بلوچستان کو مزید 4 سو میگاواٹ بجلی مل رہی ہے اوچ ٹو کے منصوبے کے مکمل ہونے کے بعد نصیرآبا د اور سبی میں انرجی کا مسئلہ حل ہو جائے گا ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے بتایا کہ بلوچستان کے 32 اضلاع میں سے تین اضلاع میں امن وامان کا مسئلہ درپیش ہے پہلے حالات بہت خراب تھے اور لیکن اب کافی حد تک بہتر ہوئے ہیں تربت  پنجگور اور کوئٹہ میں امن وامان کی صورتحال کم زیادہ خراب ہوتی رہتی ہے لیکن اغواء برائے تاوان ڈکیتیوں سمیت بدامنی کی وارداتوں کو کم کرنے کیساتھ ساتھ قومی شاہراؤں کو سفر کیلئے محفوظ بنایا ہے تین اضلاع میں جاری بدامنی کو ختم کرکے چیزوں کو بہتر بنا رہے ہیں نصیرآباد  ژوب  سبی  قلات میں امن وامان کی صورتحال بہترہوئی ہے ڈیڑھ سال قبل بلوچ علاقوں سمیت کوئٹہ میں سریاب پھاٹک سے رات کے وقت کوئی نہیں جاسکتا تھا لیکن حکومت نے حالات کو بہتر بنایا ہے اور رمضان المبارک سمیت عید کے ایام میں بازار رات بھر کھلے رہے لوگوں کا اعتماد بحال ہوا ہے انہوں نے کہا کہ دیگر صورتحال کے اثرات کوئٹہ پر پڑرہے ہیں لیکن مذہبی اور سیاسی جماعتوں کیساتھ ملکر چیزوں کو بہتر کرنے کی کوشش کررہے ہیں اس میں مشکلات درپیش آتی رہتی ہیں ناراض بلوچ رہنماؤں سے بات چیت کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ پاکستان کی سول سوسائٹی اور سیاسی جماعتوں نے سپورٹ کی تھی اور جو امید ہم سے وابستہ رکھی ہے ہم انقلاب نہیں بلکہ جمہوری سسٹم سے آئے ہیں میں یہ نہیں کہتا کہ ہم نے تمام معاملات حل کر دیئے ہیں لیکن اب تک اس انداز میں کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہماری کوشش ہے کہ بلوچ مزاحمت کاروں سے رابطے کرکے انہیں مذاکرات پر راضی کریں کہ قومی تشخص اور قومی سوال سمیت ساحل وسائل پر دسترس کیلئے طبقات کیساتھ ملکر جمہوری طورپر جنگ لڑیں ہم اس نقطہ پر انہیں قائل کرنے کیلئے کوشش کررہے ہیں کہ اس میں کامیاب ہوں ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے مسئلہ کے حل کیلئے وفاق سمیت سیاسی اور عسکری قیادت نے مکمل مینڈنٹ دیا ہے کہ اس مسئلہ کو حل کریں اس میں اعتمادکا فقدان ہے اور جو خلاء پیدا ہوا ہے اس کو پر کرنے میں وقت درکار ہے کیونکہ بلوچ مزاحمت کاری میں مختلف لوگ ہیں اور مختلف لیڈر شپ کی قیادت میں کمانڈ کررہے ہیں ہم نے کوشش کی ہے کہ تمام سے رابطے کریں اس وقت بھی بلوچستان میں تین سے چار بڑے گروپس ہیں جن سے الگ الگ بات کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ بلوچستان کے مسئلہ پر سیاسی طورپر حل نکلانا ہوگا گزشتہ 12 سالوں کے دوران جو مار کٹائی ہوئی ہے اس کا سیاسی حل ہی نکالنا ہوگا ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں لاپتہ افراد اور مسخ شدہ لاشوں کا سب سے بڑا مسئلہ تھا ہم نے اقتدار میں آنے کے بعد وزیراعظم سمیت عسکری قیادت سے بات کی تھی تو انہوں نے بھی اسے مسئلہ سمجھا تھا ہم اس کو مکمل طورپر ختم تو نہیں کراسکے لیکن اس میں کافی حد تک کمی واقع ہوئی ہے اور چھاپوں کے دوران جو لوگ پڑے جاتے ہیں انہیں واپس لارہے ہیں لوگوں کی بازیابی کے حوالے سے سپریم کورٹ میں دی گئی لسٹ کے مطابق لوگوں کو بازیاب تو نہیں کراسکے تربت اور پنجگور میں لوگ واپس آئے ہیں ہماری کوشش ہے کہ وفاق سیاسی اور عسکری قوتوں سے ملکران مسائل کا پرامن حل نکال لیں توتک سے ملنے والی لاشوں کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ موجودہ جمہوری حکومت نے اس کا کمیشن بناکر آنے والے رپورٹ کو شائع کیا ہے کیونکہ ہم کنفلٹ زون میں رہے ہیں کوئٹہ  خضدار قلات اور مستونگ سے مسخ شدہ لاشیں ملتی تھیں اب ان میں کمی واقع ہوئی ہے اور بلوچ مزاحمت کاری میں بھی خاطر خواہ کمی آئی ہے انہوں نے کہا کہ ایران میں جانیوالے زائرین کو 30 بسوں کی ذریعے بھیجا ہے 90 زائرین کو تفتان میں روکا گیا ہے کیونکہ فورسز محرم کے حوالے سیکورٹی انتظامات میں مصروف ہیں حکومت کے اقدامات کے باعث ڈیتھ اسکواڈ اور مسلح دفاع کی کارروائیاں اور اغواء برائے تاوان کے 73 گروہ کوئٹہ کراچی شاہراہ پر لوٹ مار کا سلسلہ ختم کیا گیا ہے انہوں نے کہا کہ اس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا جو حقیقت ہوگی وہ تسلیم کریں گے اپوزیشن کا کام ہے کہ وہ حکومت پر تنقید کرتے ہیں ۔