سول سوسائٹی اور میڈیا کے نمائندوں نے تمباکو کی تشہیر پرموثر پابندی کی حمایت کر دی

جمعہ 31 اکتوبر 2014 19:45

اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔31اکتوبر۔2014ء) سول سوسائٹی اور میڈیا کے نمائندوں نے تمباکو کی تشہیر پرموثر پابندی کی حمایت کرتے ہوئے وزارت ِ صحت سے مطالبہ کیا ہے کہ اس حوالے سے جلد ازجلد قانون سازی کی جائے۔ انہوں نے ان خیالات کا اظہار دی نیٹ ورک کے زیرِ اہتمام میڈیا اور سول سوسائٹی کے نمائندوں کے ساتھ منعقدہ ایک آگہی سیمینا ر سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

ایگزیکٹو ڈائریکٹر دی نیٹ ورک ندیم اقبال نے اس موقع پر مجوزہ قانون ’ماڈل لا فار کمپری ہنسو بین آن ٹوبیکو ایڈورٹائزنگ، پروموشن اینڈ سپانسر شپ (ٹیپس)‘کے خدو خال واضح کیے۔ ان کا کہنا تھا کہ سول سوسائٹی اور میڈیا کا تعاون پارلیمنٹ سے ماڈل قانون کی منظوری میں کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے۔ ندیم اقبال نے اس موقع پر حکومت کی طرف سے کی جانے والی نیم دلانہ کاوشوں کو آڑے ہاتھوں لیا اور مطالبہ کیا کہ اربابِ اقتدار کو تمباکو کی صنعت کی طرف سے اپنی مصنوعات کی تشہیر کے لیے کیے جانے والی کوششوں پر نظر رکھنی چاہئے اور ایسے تمام اسباب کا تدارک کرنا چاہئے۔

(جاری ہے)

تمباکو اور تمباکو نوشی کی تشہیر پر موثر قانون سازی کے ذریعے ہی اس کی وجہ سے پیدا ہونے والی بیماریوں مثلاکینسر، ٹی بی اور امراضِ قلب پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے شرکا کی توجہ سٹیٹ بینک کی ایک حالیہ رپورٹ کی جانب مبذول کرائی جس کے مطابق گزشتہ برس پاکستان میں 64 ارب سگریٹ پھونکے گئے اور ان پر ہونے والے اخراجات کا تخمینہ 250ارب روپے بنتا ہے۔

ندیم اقبال کا کہنا تھا کہ یہ سب ایک ایسے ملک میں ہو رہا ہے جسے بدترین غذائی قلت کا سامنا ہے اور تھرپارکر میں لوگ خصوصاً بچے اورحتیٰ کہ جانوربھی قحط کی وجہ سے جان سے ہاتھ دھو رہے ہیں۔ عالمی ادرئہ صحت کے فریم ورک کنونشن آن ٹوبیکو کنٹرول (ایف سی ٹی سی)جس کا پاکستان رکن ہے کے مطابق پاکستان کو 2009تک تمباکو کی تشہیر پر موثر قانون سازی کرنا تھی تاہم پانچ برس گزرنے کے باوجود ہم کوئی موثر قانون بنا سکے نہ ہی اس پر عملدآمد کرا سکے۔

تمباکو نوشی کے حوالے سے منظور کیے گیے 2002کے قانون کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا اس قانون میں کئی سقم ہیں اور پہلے سے موجودقوانین کی بھی خلاف ورزی کی جارہی ہے۔ تاہم اس مایوس کن صورتحال کے باوجودکچھ مثبت پیش رفت بھی ہوئی ہے ۔انہوں نے کیپٹل ایڈمنسٹریشن اینڈ ڈویلپمنٹ ڈویژن (کیڈ )کی حالیہ مہم کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کیڈ کا پراجیکٹ ’ٹوبیکو فری اسلام آباد‘ ایک مثبت پیش رفت ہوئی ہے۔

سیمینار کے دوران پر تمباکو اور تمباکو نوشی کی تشہیر پرموثر پابندی کے مجوزہ قانون کی کاپیاں شرکا ء میں تقسیم کی گئیں۔ عوامی مقامات پر سگریٹ نوشی بدستور جاری ہے اسی طرح سرکاری دفاتر ، ہوٹلوں، پریس کلبوں اور بار کونسلوں میں کھلے عام سگریٹ پی جاتی ہے ۔ انہوں نے عوام الناس پر زور دیا کہ کہ ایسے تمام واقعات کے خلاف شکایت درج کرائیں کیونکہ یہ قابل ِدست اندازی پولیس جرم ہے۔

پراجیکٹ ڈائریکٹر ڈاکٹر نورین ارشد نے شرکا کی توجہ اس تشویشناک امر کی طرف مبذول کرائی کہ اگر چہ موجودہ قوانین تمباکو کی فروخت کے مقامات (کھوکھوں وغیرہ) کے باہر تمباکو نوشی یا سگریٹ کے اشتہارات پر مکمل پابندی عائد کرتے ہیں مگر ان قوانین کو خاطر میں نہیں لایا جاتا اور دی نیٹ ورک کے ایک حالیہ سروے نے اس قانون کی77فیصد خلاف ورزی رپورٹ کی ہے۔

اسی طرح کم سن بچوں کو سگریٹ فروخت کرنے کے قوانین کی 80فیصد سے زائد خلاف ورزی نوٹ کی گئی ہے۔ سینئر صحافی خالد عظیم نے پنجاب حکومت کے انسداد تمباکو نوشی کے قوانین کے حوالے سے کہا کہ یہ قوانین قوم سے مذاق کے علاوہ کچھ نہیں ۔ صوبائی ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن قوانین کی رو سے لائسنس کے بغیر تمباکو مصنوعات فروخت کرنے کا جرمانہ 100روپے ہے اور اگر دکاندار اس قانون کی خلاف ورزی جاری رکھتا ہے تو بھی جرمانے کی رقم 100روپے سے زیادہ نہیں ہے۔

انہوں نے تمباکو کی تشہیر کے حوالے سے موثر پابندی کے مجوزہ قانون کی مکمل حمایت کی اور صحافیوں کے تعاون کا یقین دلایا۔ سہیل سرفراز اور شہزادہ عرفان نے بھی اس موقع پر خطاب کیا اور ماسکو میں ہونے والی حالیہ کانفرنس آف پارٹیز کے حوالے سے اپنے تجربات بیان کیے۔

متعلقہ عنوان :