ایم کیو ایم کے 6لاپتہ کارکنان کو رینجرز نے حراست میں لیا تھا ،سندھ ہائی کورٹ میں پولیس کا انکشاف

جمعرات 30 اکتوبر 2014 17:18

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔30 اکتوبر۔2014ء) سندھ ہائی کورٹ میں ایم کیو ایم کے 6لاپتہ کارکنان کی گمشدگی کے حوالے سے دائر درخواست پرپولیس افسران نے عدالت میں انکشاف کیا ہے کہ ان کارکنوں کو رینجرز نے حراست میں لیا تھا اور ان کی بازیابی کے حوالے سے رینجرز پولیس سے تعاون نہیں کررہی ہے ۔عدالت نے متعلقہ رینجرز کے ونگ کے ڈی ایس آر اور جے آئی ٹی رپورٹ سے متعلق ایس پیز سے رپورٹ طلب کرلی ۔

کیس کی سماعت سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس احمد علی ایم شیخ اور جسٹس محمد فاروق شاہ پر مشتمل دو رکنی بنچ نے کی ۔سماعت کے دوران ڈی ایس پی کورنگی ،ڈی ایس پی بریگیڈ سمیت دیگر ڈی ایس پیز نے عدالت میں جے آئی ٹی رپورٹ پیش کی ۔پولیس کی جانب سے پیش کردہ جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق ایم کیو ایم کے کارکن صغیر محمود ،سید کریم الدین ،محمد علی ،نعیم احمد ،ذیشان سمیت 6کارکنان کو رینجرز نے حراست میں لیا تھا ،جو تاحال لاپتہ ہیں ۔

(جاری ہے)

عدالت نے استفسار کیا کہ اب تک ان کارکنان کی گمشدگی پر رینجرز سے کس طرح تحقیقات کی گئیں ۔ڈی ایس پیز نے عدالت کو بتایا کہ متعدد بار متعلقہ رینجرز ونگ کے ڈی ایس آر کو خطوط لکھے گئے ہیں لیکن رینجرز کوئی تعاون نہیں کررہی ہے ۔عدالت نے شدید اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ کیا پولیس میں اتنی طاقت ہے کہ گمشدگی میں ملوث رینجرز اہلکاروں سے تحقیقات کرسکے ۔

بتایا جائے کہ رینجرز نے ایک سال سے زائد تحویل میں رکھنے کے بعد کسی بھی فرد کو عدالت میں پیش کیا ہو ؟اس موقع پر رینجرز کی جانب سے کرنل اشفاق نے رپورٹ پیش کی کہ ایم کیو ایم کے یہ کارکنان رینجرز کی تحویل میں نہیں ہیں ۔عدالت نے شدید غم و غصہ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حراست میں لیے گئے افراد غائب کردیئے جاتے ہیں ۔پولیس افسران نے عدالت کو بتایا کہ یہ کارکنان کے ایم سی ،ڈی ایم سی اور واٹر بورڈ کے ملزمان تھے ۔

لیکن یہ کب سے لاپتہ ہیں اور آخری مرتبہ کب اپنی ڈیوٹی پر حاضر ہوئے تھے اس حوالے سے یہ ادارے بھی کوئی اطلاع فراہم کرنے سے قاصر ہیں ۔ایم کیو ایم کے وکیل علی حسنین بخاری نے کہا کہ پولیس کی جانب سے لگائے گئے الزامات درست نہیں ہیں ۔یہ تمام ادارے حکومت کے ہیں ۔یہ ایم کیو ایم کی ذیلی تنظیم نہیں ہیں ۔اگر پولیس افسران ان اداروں کے اعلیٰ حکام سے تحقیقات کرنا چاہتے ہیں تو قانون کے مطابق کارروائی کریں اور بے جا الزام تراشی نہیں کریں تاکہ پولیس افسران کی غیرجانبداری مشکوک نہ ہو ۔عدالت نے 27نومبر تک متعلقہ رینجرز کے ونگ کے ڈی ایس آر اور جے آئی ٹی رپورٹ سے متعلق ایس پیز سے رپورٹ طلب کرلی ۔