نئی خصوصی عدالتیں قائم کرنے کی کوئی تجویز زیر غور نہیں ‘ پرویز رشید

جمعرات 30 اکتوبر 2014 16:09

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔30 اکتوبر۔2014ء) وزیر قانون انصاف و انسانی حقوق پرویز رشید نے کہا ہے کہ نئی خصوصی عدالتیں قائم کرنے کی کوئی تجویز زیر غور نہیں ‘ جیلوں میں قید خواتین میں غربت اور پسماندگی زیاد ہ ہے ‘ مالی امداد کیلئے سمری وزیر اعظم کو بھیج دی ہے ‘ کاروکاری اور گھریلو تشدد کا معاملہ انتہائی اہم ہے ‘ معاشرے میں تبدیلی آرہی ہے ‘ وقت کے ساتھ ساتھ مزید بہتری آئیگی ‘ وزارت دفاع اور اس سے منسلک محکموں میں 2011-12ء اور 2012-13ء میں 3372 افراد بھرتی کئے گئے ۔

جمعرات کو قومی اسمبلی میں وقفہ سوالات کے دوران مسلم لیگ (ن) کی شائستہ پرویز کے سوال کے جواب میں وفاقی وزیر قانون و انصاف پرویز رشید نے کہا کہ ملک میں انسانی حقوق کے تحفظ اور فروغ کیلئے سوچ کا دھارا تبدیل کرنے اور معاشی و معاشرتی عوامل کو بہتر بنانا ضروری ہے، اس حوالے سے قانون سازی کی کوشش کی جارہی ہے اور ترقی کا عمل جاری ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ جیلوں میں موجود خواتین میں غربت اور پسماندگی زیادہ ہے اور انہیں مالی مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔

وفاقی وزیر نے کہاکہ اس ضمن میں وزیراعظم کو سمری ارسال کی گئی ہے جس کی منظوری کے بعد ان خواتین کی اس فنڈ سے مدد کی جائے گی۔ایم کیو ایم کے عبدالرشید گوڈیل کے سوال کے جواب میں سینیٹر پرویز رشید نے کہا کہ کاروکاری اور گھریلو تشدد کا معاملہ انتہائی اہم ہے ، پسماندہ قبائیلی اور جاگیردارانہ نظام ان برائیوں کو جنم دیتا ہے تاہم معاشرے میں تبدیلی آرہی ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ مزید بہتری آئے گی۔

انہوں نے کہاکہ اس حوالے سے قانون کی عملداری یقینی بنانا صوبائی حکومتوں کا کام ہے پیپلز پارٹی کے عبدالستار بچانی کے سوال کے جواب میں سینیٹر پرویز رشید نے کہا کہ گھریلو تشدد فرسودہ اور پسماندہ سوچ کی بات کی ہے ، میرا اشارہ ذہنی پسماندگی کی طرف ہے۔ جماعت اسلامی کی عائشہ سید کے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد بہت سے شعبہ جات صوبوں کو منتقل ہوگئے ہیں جن میں کئی پروگرام بھی شامل ہیں ‘ اب تک کوئی پروگرام بند نہیں ہوا اور صوبے یہ سارے پروگرام چلا رہے ہیں۔

وفاقی وزیر نے کہاکہ فاٹا کے حوالے سے جو سوال اٹھائے گئے ہیں ان پر بھی کام کیا گیا ہے، گورنر خیبرپختونخوا نے بچوں کے تحفظ کی پالیسی 2012ء کی منظوری دیدی ہے اور نئے بچوں کی رجسٹریشن کا کام شروع کردیا گیا ہے۔ قبل ازیں رجسٹریشن کا نظام نہیں تھا تاہم اب معلوم ہو سکے گا کہ بچوں کو پولیو کی ویکسین ہوئی یا نہیں ہوئی اس کے علاوہ ان کی پرورش‘ اموات کے حوالے سے معلوم ہو سکے گا۔

انہوں نے بتایا کہ خواتین کے تحفظ کے حوالے سے پشاور یونیورسٹی میں فاٹا کے طالب علموں میں شعور کی بیداری کی مہم شروع کی گئی ہے۔ فاٹا سیکرٹریٹ میں خواتین کو باروزگار بنانے کے لئے خصوصی سیل بنایا گیا ہے جس میں فاٹا سے تعلق رکھنے والی خواتین، جو کام کر رہی ہیں ،کو تحفظ دینا شامل ہے۔ پیپلز پارٹی کی نفیسہ شاہ کے سوال کے جواب میں پرویز رشید نے بتایا کہ خواتین کی فلاح کے لئے ایک کروڑ پچاس لاکھ روپے کے منصوبے کی سمری وزیراعظم سیکرٹریٹ کو ارسال کی گئی ہے‘ بورڈ بھی بنایا جائے گا۔

جماعت اسلامی کے صاحبز ادہ طارق اللہ کے سوال کے جواب میں سینیٹر پرویز رشید نے کہا کہ حکومت نے قانون سازی کرلی ہے اس پر عملدرآمد صوبوں نے کرنا ہے، اقدامات ابھی انہی نے اٹھانے ہیں۔ خیبرپختونخوا میں جماعت اسلامی کے اراکین یہ معاملہ وہاں صوبائی اسمبلی میں اٹھائیں۔ ایم کیوایم کے مزمل قریشی کے سوال کے جواب میں وزیر قانون پرویز رشید نے بتایا کہ عدالتوں میں زیر التواء مقدمات کا فیصلہ کرنے کے لئے نئی خصوصی عدالتیں قائم کرنے کی کوئی تجویز زیر غور نہیں ، انسداد منشیات کی خصوصی عدالتیں‘ بینک‘ کسٹم و ٹیکسیشن‘ تحفظ پاکستان کی 21 عدالتیں کام کر رہی ہیں۔

ان میں کوئی مقدمات زیر التواء نہیں ہیں اور ان میں اضافہ کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ جماعت اسلامی کی عائشہ سید کے سوال کے جواب میں وزیر قانون پرویز رشید نے بتایا کہ بچوں کے خلاف تشدد کی روک تھام کے منصوبے میں فاٹا بھی شامل ہے، خواتین کی حیثیت پر قومی کمیشن میں فاٹا کی نمائندگی زینب عظمت کرتی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ دور دراز کے علاقوں میں معاشرتی طور پر بااثر لوگ خواتین کی فلاح کے کاموں میں رکاوٹ بنتے ہیں۔

بعض اوقات طبی سہولیات بھی اسی وجہ سے نہیں مل سکتیں۔ ایسی چیزوں کی روک تھام کے لئے حکومتوں کے ساتھ ساتھ ہم سب کو بھی کام کرنا ہوگا۔ ذہنی پسماندگی اور معاشرتی رکاوٹیں دور کرنے کے لئے کام کرنا ہوگا۔ اس حوالے سے سفارشات دی جائیں‘ اس پر عمل کریں گے۔ چوہدری محمد شہباز بابر کے سوال کے جواب میں پارلیمانی سیکرٹری چوہدری جعفر اقبال نے کہا کہ تمام بھرتیاں میرٹ پر کی گئی ہیں۔

2011-12ء اور 2012-13 میں حکومت کے وضع کردہ طریق کار کے مطابق ہی بھرتیاں کی گئی ہیں چوہدری محمد شہباز بابر کے ایک اور سوال کے جواب میں پارلیمانی سیکرٹری نے کہا کہ حکومت کو 13 لاکھ کے نقصانات کے حوالے سے 86 مقدمات کرپشن کے سامنے آئے جن میں نیشنل ہائی وے اور موٹروے پولیس کے مقدمات شامل ہیں۔ عائشہ سید کے سوال کے جواب میں پارلیمانی سیکرٹری مواصلات عالم داد لالیکا نے کہا کہ 53 ٹول پلازے موجود ہیں۔

انہوں نے کہاکہ 2013-14ء میں 2.4 فیصد ریونیو میں اضافہ ہوا ہے۔ پیرزادہ عمران احمد شاہ کے ضمنی سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ قومی شاہراہوں کو روکنے اور احتجاج کرنے والوں کی سزا کے حوالے سے صوبوں کی پولیس کو اختیار حاصل ہے۔ موٹرویز اور نیشنل ہائی ویز کے پاس اس حوالے سے اختیارات نہیں ہیں۔ شور شرابہ اور ہنگامہ آرائی سے نمٹنا صوبائی حکومتوں کا کام ہے۔

محمد عامر ڈوگر کے ضمنی سوال کے جواب میں پارلیمانی سیکرٹری عالم داد لالیکا نے کہا کہ ملتان گوجرہ موٹروے پر کام ہو رہا ہے یہ آئندہ سال تک مکمل ہو جائے گا۔جماعت اسلامی کی عائشہ سید کے سوال کے جواب میں طلال چوہدری نے بتایا کہ اشیائے خوردونوش میں ملاوٹ پر قابو پانا صوبائی حکومتوں کا کام ہے۔ وفاق کا کام معیار کا تعین کرنا ہے۔ پنجاب نے فوڈ اتھارٹی قائم کردی ہے۔

سندھ کام کر رہا ہے۔ کے پی کے اور بلوچستان کی حکومتوں نے قوانین بنا لئے تاہم اتھارٹی کا قیام عمل میں نہیں لایا گیا۔ صلاح الدین کے سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ مختلف اشیاء کے ہر تین ماہ میں نمونے لے کر ان کے معیار کو جانچا جاتا ہے۔ صرف پیک اشیاء چیک کرنا ہمارے اختیار میں ہے۔ سندھ میں فوڈ اتھارٹی کے قیام کے لئے اراکین زور دیں۔ انہوں نے بتایا کہ کھلی اشیاء خوردونوش کی جانچ پڑتال صوبوں نے کرنی ہے۔ وزارت کے 15 ادرو ں کی تشکیل نو کی جارہی ہے۔ آسیہ ناز تنولی کے سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ پاکستان بھر میں 60 ایسی لیبارٹریاں ہیں جو اشیاء خوردونوش کے معیار کو چیک کرتی ہیں۔

متعلقہ عنوان :