نئی خصوصی عدالتیں قائم کرنے کی کوئی تجویز زیر غور نہیں ‘ ملک میں انسانی حقوق کے تحفظ اور فروغ کے لئے قومی کمیشن برائے انسانی حقوق قائم کیا جارہا ہے‘ پرویز رشید

جمعرات 30 اکتوبر 2014 16:04

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔30 اکتوبر۔2014ء)قومی اسمبلی کے وقفہ سوالات کے دوران وفاقی وزیر قانون انصاف و انسانی حقوق پرویز رشید نے کہا ہے کہ نئی خصوصی عدالتیں قائم کرنے کی کوئی تجویز زیر غور نہیں ‘ ملک میں انسانی حقوق کے تحفظ اور فروغ کے لئے قومی کمیشن برائے انسانی حقوق قائم کیا جارہا ہے‘ دوردراز علاقوں میں قیام پذیر کم ترقی یافتہ قبائل اور جاگیردارانہ نظام کاروکاری اور گھریلو تشدد کو جنم دیتا ہے،خواتین کی فلاح کے لئے ایک کروڑ پچاس لاکھ روپے کے منصوبے کی سمری وزیراعظم سیکرٹریٹ کو ارسال کی گئی ہے‘ بورڈ بھی بنایا جائے گا۔

جبکہ قومی اسمبلی کو بتایا گیا ہے کہ قومی شاہراہوں کو بلاک کرکے احتجاج کرنے والوں کو سزا دینے کا اختیار صوبوں کے پاس ہے‘ موٹروے یا نیشنل ہائی وے پولیس کے پاس نہیں۔

(جاری ہے)

مواصلات کے پارلیمانی سیکرٹری عالم داد لالیکا نے کہا ہے کہ گزشتہ پانچ سالوں کے دوران این ایچ اے کے شروع کردہ کچھ منصوبے تاخیر کا شکار ہیں‘ کوششیں کی جارہی ہیں کہ منصوبوں کی تکمیل کے لئے درکار رقوم اضافی تخصیصات کے ذریعے فراہم کی جاسکیں۔

دفاع کے پارلیمانی سیکرٹری چوہدری جعفر اقبال نے کہا ہے کہ وزارت دفاع اور اس سے منسلک محکموں میں 2011-12ء اور 2012-13ء میں 3372 افراد بھرتی کئے گئے‘ یہ بھرتیاں میرٹ اور وضع کردہ طریق کار کے مطابق کی گئیں۔جمعرات کو قومی اسمبلی میں وقفہ سوالات کے دوران شائستہ پرویز کے سوال کے جواب میں وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید نے کہا کہ صوبائی حکومتوں نے اس پر عمل کرنا ہوتا ہے تاہم سوچ کا دھارا تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔

معاشی و معاشرتی عوامل کو بھی بہتر بنانا ضروری ہے۔ اس حوالے سے قانون سازی کی کوشش کی جارہی ہے۔ ترقی کا عمل جاری ہے۔ جیل میں موجود خواتین کی غربت اور پسماندگی زیادہ ہے انہیں مالی مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔ وزیراعظم کو سمری ارسال کر رکھی ہے۔ منظور ہونے کے بعد ان خواتین کی اس فنڈ سے مدد کی جائے گی۔ عبدالرشید گوڈیل کے سوال کے جواب میں سینیٹر پرویز رشید نے کہا کہ کاروکاری اور گھریلو تشدد کا معاملہ انتہائی اہم ہے۔

پسماندہ قبائل اور جاگیردارانہ نظام ان برائیوں کو جنم دیتا ہے‘ معاشرے میں تبدیلی آرہی ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ مزید بہتری آئے گی۔ صوبائی حکومتوں کا کام ہے کہ اس حوالے سے قانون کی عملداری یقینی بنائی جائے۔اس طرح کی بہت سی بیماریوں سے نجات مل جائے گی۔ عبدالستار باچانی کے سوال کے جواب میں سینیٹر پرویز رشید نے کہا کہ فرسودہ اور پسماندہ سوچ کی بات کی ہے۔

میرا اشارہ ذہنی پسماندگی کی طرف ہے۔ عائشہ سید کے سوال کے جواب میں وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید نے کہا کہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد بہت سے شعبہ جات صوبوں کو منتقل ہوگئے ہیں۔ کئی پروگرام بھی ان کو منتقل ہوئے‘ کوئی پروگرام بند نہیں ہوا‘ صوبے یہ سارے پروگرام چلا رہے ہیں۔ فاٹا کے حوالے سے جو سوال اٹھائے گئے ہیں ان پر بھی کام کیا گیا ہے۔

بچوں کے تحفظ کی پالیسی 2012ء کو گورنر کے پی کے نے منظور کرلیا ہے۔ نئے بچوں کی رجسٹریشن کا کام شروع کردیا گیا ہے۔ قبل ازیں رجسٹریشن کا نظام نہیں تھا اب معلوم ہو سکے گا کہ بچوں کو پولیو کی ویکسین ہوئی یا نہیں ہوئی۔ ان کی پرورش‘ اموات کے حوالے سے معلوم ہو سکے گا۔ انہوں نے بتایا کہ خواتین کے تحفظ کے حوالے سے پشاور یونیورسٹی میں فاٹا کے طالب علموں میں شعور کی بیداری کی مہم شروع کی گئی ہے۔

فاٹا سیکرٹریٹ میں خواتین کو باروزگار بنانے کے لئے خصوصی سیل بنایا گیا ہے جس کے کام میں فاٹا سے تعلق رکھنے والی ایسی خواتین جو کام کر رہی ہیں ان کو تحفظ دینا شامل ہے۔ نفیسہ شاہ کے سوال کے جواب میں پرویز رشید نے بتایا کہ خواتین کی فلاح کے لئے ایک کروڑ پچاس لاکھ روپے کے منصوبے کی سمری وزیراعظم سیکرٹریٹ کو ارسال کی گئی ہے‘ بورڈ بھی بنایا جائے گا۔

طارق اللہ کے سوال کے جواب میں پرویز رشید نے کہا کہ حکومت نے قانون سازی کرلی ہے اس پر عملدرآمد صوبوں نے کرنا ہے۔ اقدامات ابھی انہی نے اٹھانے ہیں۔ کے پی کے میں جماعت اسلامی کے اراکین یہ معاملہ وہاں صوبائی اسمبلی میں اٹھائیں۔ مزمل قریشی کے سوال کے جواب میں وزیر قانون پرویز رشید نے بتایا کہ عدالتوں میں زیر التواء مقدمات کا فیصلہ کرنے کے لئے نئی خصوصی عدالتیں قائم کرنے کی کوئی تجویز زیر غور نہیں ہے۔

انسداد منشیات کی خصوصی عدالتیں‘ بینک‘ کسٹم و ٹیکسیشن‘ تحفظ پاکستان کی 21 عدالتیں کام کر رہی ہیں جو کافی ہیں ان میں کوئی مقدمات زیر التواء نہیں ہیں۔ ان میں اضافہ کی ضرورت نہیں ہے۔ عائشہ سید کے سوال کے جواب میں وزیر قانون پرویز رشید نے بتایا کہ بچوں کے خلاف تشدد کی روک تھام کے منصوبے میں فاٹا بھی شامل ہے۔ خواتین کی حیثیت پر قومی کمیشن میں فاٹا کی نمائندگی زینب عظمت کرتی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ دور دراز کے علاقوں میں معاشرتی طور پر بااثر لوگ خواتین کی فلاح کے کاموں میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ بعض اوقات طبی سہولیات بھی اسی وجہ سے نہیں مل سکتیں۔ ایسی چیزوں کی روک تھام کے لئے حکومتوں کے ساتھ ساتھ ہم سب کو بھی کام کرنا ہوگا۔ ذہنی پسماندگی اور معاشرتی رکاوٹیں دور کرنے کے لئے کام کرنا ہوگا۔ اس حوالے سے سفارشات دی جائیں‘ اس پر عمل کریں گے۔

وقفہ سوالات کے دوران چوہدری محمد شہباز بابر کے سوال کے جواب میں پارلیمانی سیکرٹری چوہدری جعفر اقبال نے کہا کہ تمام بھرتیاں میرٹ پر کی گئی ہیں۔ 2011-12ء اور 2012-13 میں حکومت کے وضع کردہ طریق کار کے مطابق ہی بھرتیاں کی گئی ہیں۔ چوہدری محمد شہباز بابر کے سوال پر پارلیمانی سیکرٹری عالم داد لالیکا نے کہا کہ حکومت کو 13 لاکھ کے نقصانات کے حوالے سے 86 مقدمات کرپشن کے سامنے آئے جن میں نیشنل ہائی وے اور موٹروے پولیس کے مقدمات شامل ہیں۔

عائشہ سید کے سوال کے جواب میں پارلیمانی سیکرٹری مواصلات عالم داد لالیکا نے کہا کہ 53 ٹول پلازے موجود ہیں۔ 2013-14ء میں 2.4 فیصد ریونیو میں اضافہ ہوا ہے۔ پیرزادہ عمران احمد شاہ کے ضمنی سوال کے جواب میں قومی اسمبلی کو بتایا گیا کہ قومی شاہراہوں کو روکنے اور احتجاج کرنے والوں کی سزا کے حوالے سے صوبوں کی پولیس کو اختیار حاصل ہے۔ موٹرویز اور نیشنل ہائی ویز کے پاس اس حوالے سے اختیارات نہیں ہیں۔

شور شرابہ اور ہنگامہ آرائی سے نمٹنا صوبائی حکومتوں کا کام ہے۔ محمد عامر ڈوگر کے ضمنی سوال کے جواب میں پارلیمانی سیکرٹری عالم داد لالیکا نے کہا کہ ملتان گوجرہ موٹروے پر کام ہو رہا ہے یہ آئندہ سال تک مکمل ہو جائے گا۔ عائشہ سید کے سوال کے جواب میں وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کے پارلیمانی سیکرٹری طلال چوہدری نے بتایا کہ اشیائے خوردونوش میں ملاوٹ پر قابو پانا صوبائی حکومتوں کا کام ہے۔

وفاق کا کام معیار کا تعین کرنا ہے۔ پنجاب نے فوڈ اتھارٹی قائم کردی ہے۔ سندھ کام کر رہا ہے۔ کے پی کے اور بلوچستان کی حکومتوں نے قوانین بنا لئے تاہم اتھارٹی کا قیام عمل میں نہیں لایا گیا۔ صلاح الدین کے سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ مختلف اشیاء کے ہر تین ماہ میں نمونے لے کر ان کے معیار کو جانچا جاتا ہے۔ صرف پیک اشیاء چیک کرنا ہمارے اختیار میں ہے۔ سندھ میں فوڈ اتھارٹی کے قیام کے لئے اراکین زور دیں۔ انہوں نے بتایا کہ کھلی اشیاء خوردونوش کی جانچ پڑتال صوبوں نے کرنی ہے۔ وزارت کے 15 ادرو ں کی تشکیل نو کی جارہی ہے۔ آسیہ ناز تنولی کے سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ پاکستان بھر میں 60 ایسی لیبارٹریاں ہیں جو اشیاء خوردونوش کے معیار کو چیک کرتی ہیں۔