سمندری طوفان ”نیلوفر“سے پاکستان اور بھارت میں آئندہ 36 گھنٹوں کے اندر تباہی کا خدشہ

بدھ 29 اکتوبر 2014 23:08

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔29 اکتوبر۔2014ء) سمندری طوفان ”نیلوفر“جس سے پاکستان اور ہندوستان میں آئندہ 36 گھنٹوں کے اندر تباہی کا خدشہ ہے، پاکستان کے جنوبی ساحلی علاقوں سے 870 کلو میٹر دور رہ گیا ہے۔محکمہ موسمیات کے حکام کے مطابق نیلوفر جسے ”انتہائی شدید سمندری طوفان“قرار دیا گیا ہے، ہوسکتا ہے کہ زمین سے ٹکرانے سے پہلے کمزور ہوکرسمندری طوفان کی شکل اختیار کرلے۔

اس ضمن میں محکمہ موسمیات کے سربراہ توصیف عالم نے بتایا کہانتہائی شدید گرد آلود ہوائیں اور متعدل سے تیز بارشوں کا امکان ہے۔محکمہ موسمیات کے مطابق پاکستانی ساحلی علاقوں کی صورتحال جمعرات سے جمعہ تک خطرناک ہوسکتی ہے جس کے مدنظر سندھ اور بلوچستان کے ماہی گیروں کو کھلے سمندر میں نہ جانے کا مشورہ دیا گیا ہے جبکہ جو پہلے ہی کھلے سمندر پر موجود ہیں انہیں واپسی بلالیا گیا ہے ۔

(جاری ہے)

دوسری جانب نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے)نے مقامی اداروں کو خبردار کیا ہے کہ طوفان کے پیش نظر احتیاطی اقدامات مکمل کرلیں۔این ڈی ایم اے کے ترجمان احمد کمال نے بتایا کہ ہم نے صوبائی سطح پر ماہی گیروں کو انتباہ جاری کیا ہے کہ وہ آئندہ چند روز تک کھلے سمندر میں شکار کے جانے سے گریز کریں۔سندھ حکومت نے سمندری طوفان کے خطرے سے دوچار اضلاع میں ایمرجنسی کا نفاذ کردیا ہے جبکہ کراچی کی بلدیاتی حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس نے مبارک ویلیج اور ابراہیم حیدری سے لوگوں کے انخلاکے انتظامات کرلیے ہیں۔

ڈی جی پی ٹی ایم اے سندھ سید سلمان شاہ کے مطابق ساحلی پٹی پر طوفان سے تین لاکھ کے لگ بھگ افراد متاثر ہوسکتے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ کراچی، ٹھٹھہ، سجاول اور بدین میں دفعہ 144 کا نفاذ کردیا گیا ہے اور متعلقہ اداروں کو ہائی الرٹ کردیا گیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ساحلی پٹی سے ملحقہ اضلاع کے ہسپتالوں میں بھی ایمرجنسی کا نفاذ کردیا گیا ہے اور عملے کی تعطیلات کو منسوخ کردیا گیا ہے جبکہ کسی بھی ایمرجنسی کی صورت میں ساحلی علاقوں سے فوری طور پر ماہی گیروں کو منتقل کرنے کے اقدامات پر بھی بات چیت کی جارہی ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ساحلی علاقوں کے رہائشیوں کو کیمپس میں رکھنے کی بجائے حکومتی عمارات میں رہائش فراہم کی جائے گی تاکہ وہ بارشوں اور گردآلود ہواں سے محفوظ رہیں جبکہ متاثرہ افراد کو تمام ضروری سہولیات بھی فراہم کی جائیں گی۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ پی ڈی ایم اے سندھ ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے مکمل طبور پر تیار ہے اور اس کا عملہ ہائی الرٹ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ مقامی انتظامیہ کو بھی الرٹ رہنے کی ہدایت جاری کی گئی ہے اور کراچی انتظامیہ کو ڈرینز کی صفائی یقینی بنانے کا کہا گیا ہے۔کمشنر کراچی شعیب صدیقی نے پاکستان فشر فورک فورم اور دیگر این جی اوز سے درخواست کی ہے کہ وہ ماہی گیروں سے رابطہ کرکے انہیں احتیاطی اقدامات کے لیے اپنانے کا مشورہ دیں۔انہوں نے کنٹونمنٹ بورڈ اور بلدیاتی حکام کو بھی ہدایات جاری کی ہیں کہ خطرناک اور بے کار سائن بورڈز کو فوری طور پر ہٹادیاجائے تاکہ سمندری طوفان کے دوران وہ کسی سانحے کا سبب نہ بن سکیں۔

انہوں نے کے ایم سی، ضلعی بلدیاتی اداروں اور دیگر متعلقہ حکام کو بھی ہدایت کی ہے کہ دفعہ 144 کے نفاذ پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے اور سمندر میں نہانے پر پابندی برقرار رکھی جائے۔کے الیکٹرک کی جانب سے سمندری طوفان” نیلوفر“ کے حوالے سے پلان جاری کردیاگیاہے۔کے الیکٹرک کے مطابق طوفان کے باعث پول اور تاریں ٹوٹنے کا خدشہ زیادہ ہے جس کے لیے انتظامیہ سے درخواست کی گئی ہے کہ تاروں سے پر درخت کی ٹہنیوں کو صاف کیا جائے۔

صارفین ٹوٹے ہوئے تار اور پول سے دور رہیں۔پاکستانی فشرفوک فورم کے چیئرپرسن محمد علی شاہ نے این ڈی ایم اے، پی ڈی ایم اے، ڈی ڈی ایم اے اور دیگر حکومتی اداروں کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس طرح کے سانحات کے خطرات کے باوجود تباہی کے اثرات کو کم کرنے کے لیے کسی قسم کی منصوبہ بندی اور مناسب انتظامات نظر نہیں آتے۔

انہوں نے بتایا کہ حکومت کی جانب سے کوئی بھی کشتیوں اور عملے کی مدد کرتا نظر نہیں آتا، ان کے پاس کوئی نظام نہیں اس کے مقابلے میں وہ بس پی ایف ایف سے ہی تعاون کی درخواست کرتے ہیں۔محمد علی شاہ نے کہا کہ پی ایف ایف برادری کے رضاکار ساحلی پٹی پر ماہی گیروں کو خبردار کرنے کے لیے سرخ جھنڈوں کو لہراتے ہیں مگر حکومتی انتظامیہ کی جانب سے اس حوالے سے کسی قسم کی مدد اور سہولیات فراہم نہیں کی جاتی۔

مبارک ویلیج کے ایک ماہی گیری نے بتایا کہ اب تک کسی حکومتی نمائندے نے اس کے گاؤں کا دورہ نہیں کیا اور نا ہی انخلاکے انتظامات دیکھنے میں آئے ہیں۔اس کے بقول ماہی گیر گاؤں کے رہائشیوں نے طوفان کے پیش نظر اپنی کشتیاں اور چھوٹے جہاز اپنی مدد آپ کے تحت نسبتا محفوظ علاقوں میں منتقل کردیئے ہیں۔