’لَوّ جہاد‘ سے ہندو مسلم کشیدگی بڑھنے لگی

اتوار 26 اکتوبر 2014 14:09

نئی دہلی(اُردو پوائنٹ اخبارتاز ترین ۔ 26اکتوبر 2014ء)بھارت میں کٹر ہندووٴں کا دعویٰ ہے کہ ملک بھر میں درجنوں مسلمان نوجوان ہندو لڑکیوں کو اغوا کرنے کے بعد اْنہیں اپنی محبت کے جال میں پھنسا رہے ہیں اور یہ کہ اْن کا واحد مقصد اْنہیں ہندو سے مسلمان بنانا ہے۔فرانسیسی خبررساں ادارے نے اپنے ایک تازہ جائزے میں لکھا ہے کہ حال ہی میں قومی میڈیا پر شمالی ریاست اْتر پردیش کی ایک بیس سالہ ہندو لڑکی کو دکھایا گیا، جس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے اور جو یہ بتا رہی تھی کہ اْسے اغوا کرنے اور جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد زبردستی اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا گیا۔

اگرچہ گزشتہ ہفتے اس خاتون نے ہنگامہ خیز انداز میں اپنے تمام تر الزامات یہ کہتے ہوئے واپس لے لیے کہ اْس کے گھر والوں نے اْس پر دباوٴ ڈال کر اْسے یہ ساری کہانی گڑھنے کے لیے کہا تھا تاہم میڈیا کی اس طرح کی رپورٹوں نے کٹر ہندو قوم پرستوں کے ان خدشات کو ہوا دی ہے کہ مسلمان نوجوان ’لَوّ جہاد‘ کی مہم جاری رکھے ہوئے ہیں۔

(جاری ہے)

دائیں بازو کے انتہا پسند ہندو اپنی وَیب سائٹس پر اور پمفلٹس کی صورت میں ہندو اکثریت کو ’لَوّ جہاد‘ کے ’خطرے‘ سے خبردار کر رہے ہیں جبکہ ایک سرکردہ حکومتی وزیر نے دونوں جانب کے مذہبی قائدین پر زور دیا ہے کہ وہ ’مکالمت کے ذریعے اس مسئلے کا حل تلاش کریں۔

تقریباً ایک ارب پچیس کروڑ کی آبادی کے حامل بھارت میں مسلمانوں کی تعداد 150 ملین کے لگ بھگ ہے اور کٹر ہندووٴں کا الزام یہ ہے کہ مسلمان اپنی اس خفیہ مہم کے ذریعے سیکولر بھارت کو ’اپنا‘ ملک بنانا چاہتے ہیں۔میڈیا میں پہلے الزامات عائد کرنے والی اور پھر اپنے الزامات واپس لے لینے والی ہندو لڑکی کے حوالے سے انتہا پسند جماعت وشوا ہندو پریشد کے ایک ترجمان ونود بنسال نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’یقینی طور پر اس لڑکی کو غلط بیانات دینے پر مجبور کیا جا رہا ہے‘۔

یہ دعویٰ کرتے ہوئے کہ وہ صرف نئی دہلی ہی میں ’لَوّ جہاد‘ کے کم از کم دَس کیسوں سے واقف ہیں، بنسال کا کہنا تھا:”ہمارا پولیس کا نظام اتنا کمزور ہے کہ خواتین کے لیے آگے آ کر کھلے عام یہ بتانا مشکل ہوتا ہے کہ کیسے مسلمان مرد اْنہیں جبر و تشدد کا نشانہ بنا رہے ہیں۔فرانسیسی خبررساں ادارے نے اپنے جائزے میں لکھا ہے کہ جب سے وزیر اعظم نریندر مودی کی ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی بائیں بازو کی اعتدال پسند جماعت کانگریس پارٹی کے دَس سالہ اقتدار کو ختم کرتے ہوئے اس سال مئی کے انتخابات کے نتیجے میں برسرِ اقتدار آئی ہے، بنسال جیسے کارکنوں کے حوصلے بڑھ گئے ہیں۔

اگرچہ انتہا پسند ہندو تنظیم آر ایس ایس (راشٹریہ سیونگ سَنگھ) کے ساتھ مودی کے بھی دیرینہ روابط ہیں تاہم اقتدار میں آنے کے بعد وزیر اعظم نے ان خدشات کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ اْن کی دائیں بازو کی حکومت میں مذہبی اقلیتوں کو پیچھے دھکیل دیا جائے گا۔اگرچہ خود اعتدال پسند ہندو بھی ’لَوّ جہاد‘ کو ایک مضحکہ خیز سازشی نظریہ قرار دیتے ہوئے مسترد کرتے ہیں تاہم ماہرین خبردار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کٹر عناصر کی عوام کو مذہبی بنیادوں پر منقسم کرنے کی کوششوں کے نتیجے میں مختلف مذاہب کے درمیان کشیدگی کو ہوا مل سکتی ہے۔

’لَوّ جہاد‘ کی اصطلاح 2009ء میں اْس وقت ابھر کر سامنے آئی تھی، جب ایک ہندو انتہا پسند تنظیم نے دعویٰ کیا تھا کہ ریاست کرناٹک میں تقریباً تیس ہزار خواتین کو مسلمان بنا لیا گیا ہے۔بھارتی فلم نگری کے مشہور ستارے سیف علی خان نے ایک مسلمان ہوتے ہوئے ایک ہندو اداکارہ کرینہ کپور سے شادی کر رکھی ہے۔ حال ہی میں اْنہوں نے ایک قومی اخبار ’انڈین ایکسپریس‘ میں اپنے ایک بے حد سراہے جانے والے مضمون میں ’لَوّ جہاد‘ کو مسترد کرتے ہوئے کہا:”جب مَیں نے اور کرینہ نے شادی کی تھی، ہمیں بھی اسی طرح قتل کی دھمکیاں ملی تھیں اور انٹرنیٹ پر لوگ لَوّ جہاد کے بارے میں عجیب و غریب باتیں لکھ رہے تھے۔

شادی جہاد نہیں ہے۔ بین المذاہب شادی ہی انڈیا ہے۔ انڈیا ایک مِکس ہے۔