داعش کے زور پکڑنے سے پاکستان میں طالبان کی کمر ٹوٹ رہی ہے،برطانوی اخبار

جمعہ 24 اکتوبر 2014 21:56

داعش کے زور پکڑنے سے پاکستان میں طالبان کی کمر ٹوٹ رہی ہے،برطانوی اخبار

لندن(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔24 اکتوبر۔2014ء) برطانوی اخبار”گارجین“ لکھتا ہے کہ داعش کے زور پکڑنے سے پاکستان میں طالبان کی کمر ٹوٹ رہی ہے۔شمالی وزیر ستان میں پاک فوج کے آپریشن نے ان کو بھاگنے پر مجبور کردیا ہے۔ جانشینی کے تنازع کے بعد سے ٹی ٹی پی میں آپس میں شدید تناو تھا،اس وقت تحریک طالبان پاکستان 4گروپوں میں تقسیم ہو چکی ہے۔

شاہداللہ شاہد نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ حقیقی ٹی ٹی پی ہیں اور شمالی وزیر ستان کے آپریشن نے ان کی قوت کو متاثر نہیں کیا۔ تحریک طالبان کو اس وقت داعش کے چیلنج کا سامنا ہے۔ اخبار لکھتا ہے کہ شام اور عراق میں داعش (ISIS) کا ڈرامائی انداز میں طاقت پکڑناپاکستانی طالبان کا شیرازہ بکھیرنے میں معاون ہو رہا ہے۔ پاکستان میں ایک وقت ایسا بھی تھا جب تحریک طالبان ایک خوف کی علامت تھی۔

(جاری ہے)

2013 ء میں امریکی ڈرون حملے میں ان کے رہنما حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد تحریک طالبان میں تناو کی صورت حال پیدا ہو گئی، پاک فوج کی طرف سے شمالی وزیرستان میں ان کے خلاف آپریشن اور ان کی پناہ گاہوں کا نشانہ بنانا تحریک طالبان کو مزید دھچکا دے گیا،تاہم ٹی ٹی پی کے لئے تازہ ترین چیلنج داعش کی چونکا دینے والی عسکری کامیابیا ں ہیں اور ان کا مطالبہ یہ ہے کہ ان کی طرف اعلان کردہ خلافت کی تمام مسلمان بیعت کریں۔

خودساختہ عالم اسلام کی قیادت کا دعویٰ کرنے والے ابو بکر البغدادی نے تحریک طالبان پاکستان کی حیثیت کو کمزور کردیا ہے جس کے علامتی سربراہ ملا عمر ہے۔رواں ہفتے طالبان کی محصور قیادت نے بغدادی کے ساتھ وفاداری کے اعلان پر ترجمان شاہد اللہ شاہد کو برطرف کردیا۔ ایک پاکستانی سیکورٹی تھنک ٹینک کے سربراہ کا کہنا ہے کہ پاکستانی عسکریت پسندوں کا داعش میں شمولیت انتہائی اہم رخ ہے جوبہت سے دوسرے چھوٹے گروپوں کی حوصلہ افزائی کرے گاوہ گروپ اسی انتظار میں ہیں کہ بڑے گروپ کیا کرنے جا رہے ہیں۔

تحریک طالبان پاکستان کو داعش کی طرف سامنا تازہ ترین واقعہ ہے لیکن ٹی ٹی پی کی جانشینی پراٹھنے والے تنازع اور فضل اللہ کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد سے تحریک ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ٹی ٹی پی پر محسود قبیلے کا غلبہ تھا ،محسود قبیلے سے تعلق نہ ہونے کی وجہ سے فضل اللہ عسکریت پسندوں کے اتحاد کو برقرار نہ رکھ سکے جو 2007ء سے قائم ہوا تھا۔ حکمت عملی پر اختلافات کی وجہ تحریک طالبان 4گروپوں میں بٹ چکی ہے۔

فضل اللہ کی اتھارٹی اس وقت مزید کمزور ہوگئی جب پاک فوج نے شمالی وزیرستان میں ان کی پناہ گاہیں تباہ کرنے کے لئے ایک بڑی کارروائی شروع کی تو مشرقی افغانستان میں اپنے رشتہ دار کے ہاں پناہ لیے بیٹھا تھا۔ پاک فوج نے اس آپریشن میں 15جون سے اب تک1100عسکریت پسندوں کا ہلاک کیا ہے۔تحریک طالبان پاکستان کے آپس کے انتشار اور شمالی وزیر ستان میں ان کی ٹھکانوں کی تباہی سے نقصانات کے بعد پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں کمی آئی ہے۔

لیکن تجزیہ کاروں نے خبردار کیا کہ تحریک طالبان اورر دیگر ذیلی گروپ اپنی کارروائیوں سے بڑا نقصان پہنچانے کو ثابت کرنے کے لئے بے چین ہیں۔شاہد اللہ شاہد نے ا خبار کو بتایا کہ وہی اصلی ٹی ٹی پی ہیں اور شمالی وزیر ستان کے نقصان نے انہیں متاثر نہیں کیا۔اس کا کہنا تھا کہ جب شمالی وزیرستان آپریشن شروع ہوا تو وہ اپنے وسائل محفوظ مقامات پر منتقل کر چکے تھے۔انہوں نے کہا کہ صدر مقام تبدیل ہونے سے نظریات، حکمت عملی اور دشمن کو تباہ کرنے کی خواہش تبدیل نہیں ہوتی۔

متعلقہ عنوان :