سپریم کورٹ کا ملک بھر میں لیڈی ہیلتھ ورکرز کو ان کے گھروں میں مستقل ملازمت کے تقرر نامے اور واجبات کی ادائیگی اورہراساں نہ کرنے کا حکم

جمعرات 23 اکتوبر 2014 22:34

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔23 اکتوبر۔2014ء) سپریم کورٹ نے ملک بھر میں لیڈی ہیلتھ ورکرز کو ان کے گھروں میں مستقل ملازمت کے تقرر نامے اور واجبات کی ادائیگی کا حکم دیا ہے اور حکم دیا ہے کہ لیڈی ہیلتھ ورکرز کو ہراساں نہ کیا جائے‘ وفاق کے تحت 366 لیڈی ہیلتھ ورکرز کو پیر تک تنخواہیں ادا کردی جائیں‘ حکومت سرکاری افسران کو پابند کرے کہ آئندہ غیر سنجیدہ بیانات عدالت میں جمع نہ کروائے جائیں جبکہ دو رکنی بنچ کے سربراہ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دئیے کہ لوگوں کے حقوق متاثر کرنے والے غیر سنجیدہ بیانات برداشت نہیں کریں گے‘ لیڈی ہیلتھ ورکرز سے رشوت مانگی جاتی ہے انہیں ہراساں کیا جاتا ہے‘ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں کچھ تو اسلامی ہونا چاہئے‘ آخر سرکاری اداروں میں خواتین ملازمین کو ہراساں کرنا کب بند ہوگا؟‘ ظلم بھی ہوگا اور نظام بھی چلے گا‘ جسے یہ غلط فہمی ہے وہ دور کرلے اب ایسا نہیں ہوگا‘ حضرت علی نے فرمایا کہ کفر کا نظام چل سکتا ہے مگر ظلم کا نظام نہیں‘ لیڈی ہیلتھ ورکرز ”ان دی لائن آف فائر“ ہیں۔

(جاری ہے)

انہوں نے یہ ریمارکس جمعرات کے روز دئیے۔ سماعت شروع ہوئی تو بشریٰ آرائیں لیڈی ہیلتھ ورکر کیس میں اٹارنی جنرل پیش ہوئے جسٹس جواد نے کہا کہ ہم گمراہ کرنے کے بیانات کو برداشت نہیں کرسکتے ہمارے حکم پر عمل کیوں نہیں کیا گیا۔ سرکار کا کام غلط بیان دینا نہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ پیر تک نوٹیفکیشن جاری ہوجائے گا۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ سابقہ حکم پڑھ لیں ہم اس سے بہت ڈسٹرب ہوئے ہیں ہوسکتا ہے کہ ہمیں غلط فہمی ہوئی ہو لیکن یہ غلط فہمی نہیں ہوئی کیونکہ بشریٰ آرائیں نے بتایا تھا کہ جون کی تنخواہ نہیں دی گئی۔

جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ اب تک تنخواہ جاری ہوجانی چاہئے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ لوگوں کے حقوق متاثر کرنے والے بیانات کو ہرگز برداشت نہیں کریں گے۔ ہمارے تحفظات متعلقہ حکام تک پہنچادیں۔ اٹارنی جنرل نے بتایا تھا کہ 366 لیڈی ہیلتھ ورکرز کو تنخواہ دے دی گئی ہے حالانکہ ایسا نہیں ہوا۔ حکومت سرکاری ملازمین کو پیر تک تنخواہیں ادا کردے۔ حکومت اپنے افسران کو حکم جاری کرے کہ وہ غلط قسم کے بیانات آئندہ عدالت میں جمع نہ کروائیں‘ غیر سنجیدہ بیانات سے پرہیز کیا جائے۔

بشریٰ نے کہاکہ یہ ہمیں ہاتھوں ہاتھ نہ دئیے جائیں بلکہ اکاؤنٹس میں دئیے جائیں۔ بشریٰ نے کہا کہ وفاقی حکومت نے ذاتی طور پر آرڈر جاری نہیں ۔ جسٹس جواد نے کہاکہ ہماری بچیاں ”ان دی لائن آف فائر“ ہیں اور کوئی کام ایسا نہیں ہے جو ان سے نہ لیا جاتا ہو ہم چاہتے ہیں کہ اس کا جواب دیا جائے۔ یہ کہتی ہیں کہ ان سے رشوت مانگی جاتی ہے ہم ایک لاکھ چھ ہزار ورکرز کے گھر نہیں جاسکتے۔

بیان حلفی جمع کروایا جائے کہ جو بھی باقاعدہ ملازم ہے اس کو آرڈر دے دیا ہے۔ ہماری بچیاں اور بہنیں ہیں۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں کچھ تو اسلامی ہونا چاہئے۔ عدالت نے حکم نامے میں کہا کہ اسلام آباد ضلعی انتظامیہ نے تاحال تقرر نامے لیڈی ہیلتھ ورکروں کے جاری نہیں کئے ہیں جب سے وہ باقاعدہ ہوئی ہیں اٹارنی جنرل اس بات کو یقینی بنائیں کہ ان ملازمین کو بغیر کسی تردد کے اور ان کے دفاتر میں حاضری سے قبل ہی تقرر نامے جاری کئے جائیں۔

لیڈی ہیلتھ ورکرز کو پاکستان بھر میں ہراساں نہ کیا جائے اور غیر ضروری مطالبات نہ کئے جائیں۔ صوبے اس بات کو بھی یقینی بنائیں کہ تمامتر لیڈی ہیلتھ ورکرز کو انفرادی طور پر تقرر نامے جاری کئے جائیں۔ چیف کمشنر اسلام آباد اور صوبائی سیکرٹریز صحت بیان حلفی داخل کروائیں کہ وفاق اور صوبوں میں کام کرنے والی تمام لیڈی ہیلتھ ورکرز کو تقرر نامے جاری کردئیے جائیں۔

کوئی لیڈی ہیلتھ ورکر افسران بالا کے دفاتر میں نہیں جائیں گی کوئی رشوت نہیں دیتی سب کو گھروں میں تقرر نامے بھجوائے جائیں۔ عوام الناس کیساتھ نارواء سلوک کب تک برداشت کرتے رہیں گے۔ یہ سلوک کب ختم ہوگا۔ جس افسر نے رشوت مانگی تو اس کیخلاف سخت ترین کارروائی کریں گے۔ جن افسران کی اپنی بیٹیاں ہیں تو ان کو بھی بیٹیاں سمجھا جائے۔ اگر قوم کو غلط فہمی ہے کہ ظلم بھی چلتا رہے گا اور نظام بھی چلے گا تو ایسا نہیں ہوسکتا۔ حضرت علی نے فرمایا کہ کفر پر نظام چل سکتا ہے ظلم پر نہیں۔ مزید سماعت 30 روز کیلئے ملتوی کردی گئی

متعلقہ عنوان :