وزیر اعظم نااہلی کیس،اہم آئینی و قانونی نکات پر اٹارنی جنرل سے 7 روز میں جواب طلب

جمعرات 23 اکتوبر 2014 22:34

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔23 اکتوبر۔2014ء)سپریم کورٹ نے تحریک انصاف لائرز ونگ کے سینئر صدر گوہر نواز سندھو کی جانب سے وزیر اعظم نواز شریف کی نااہلی کیلئے دی گئی درخواست میں اٹھائے گئے اہم آئینی و قانونی نکات پر اٹارنی جنرل پاکستان سے سات روز میں جواب طلب کیا ہے جبکہ عدالت نے گوہر نواز سندھو ،اسحاق خاکوانی اور چوہدری شجاعت حسین کو بھی ہدایت کی ہے کہ وہ تحریری طور پر ذاتی حیثیت سے یا پارٹی کی جانب سے درخواست دائر کرنے بارے اپنی پوزیشن واضح کریں اور دو رکنی بنچ کے سربراہ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیئے کہ ملک میں بلدیاتی انتخابات عدالتی نہیں آئینی و قانونی تقاضا ہیں ۔

امید ہے کہ جلد ہو جائیں گے ۔ہم چاہتے ہیں کہ صادق اور امین کے حوالے سے اب فیصلہ ہو جانا چاہیے ،ممکن ہے کہ عدالت کو 18 کروڑ عوام کو ہی صادق و امین کی سند جاری کرنا پڑے ۔

(جاری ہے)

سپیکر نے کہا کہ سماعت کا اختیار عدالت کے پاس ہے اور عدالت کہتی ہے کہ اسے اختیار سماعت نہیں تو پھر اس کافیصلہ کون کرے گا۔ یہ عدالت ہی فیصلہ کرے گی ۔کون جج سماعت کرنے کا اہل ہے یا نہیں اس کا فیصلہ بھی خود عدالت کرے گی ۔

یہ معاملہ کسی وکیل کے سپرد نہیں کر سکتے۔ دو ممبر دس ممبر یا پھر پوری اسمبلی اس فیصلے سے فارغ ہو جاتی ہے یہ ہمارا درد سر نہیں ہے ہم نے آئینی و قانون کے مطابق فیصلہ دینا ہے ۔ہم جو فیصلہ کریں گے ہو سکتا ہے کہ بعض اداروں کو قربانی دینا پڑے ۔18 ویں ترمیم میں ممبران پارلیمنٹ کی نا اہلی کا اختیار سپیکر سے لیکر عدالت کو دے دیا گیا ہے۔ انہوں نے یہ ریمارکس جمعرات کو روز دیئے ہیں ۔

سماعت کے دوران اسحق خاکوانی کے وکیل عرفان قادر نے کہا کہ یہ اہم مقدمہ ہے جس کو تین رکنی بنچ ہی سن سکتا ہے جبکہ جواد ایس خواجہ نے گوہر نواز سندھو سے کہا کہ ان کی درخواست کی سماعت ڈویژن بنچ نے کی تھی اس لئے اس کی سماعت تین رکنی بنچ کرے گا۔ہائی کورٹ کہتی ہے کہ یہ سیاسی سوال پر مبنی درخواست ہے جسٹس جواد کا مزید کہنا تھا کہ یہ سیاسی نہیں قانونی نکات پر مبنی کیس ہے جس کو سننا ضروری ہے ۔

سندھو کو مقدمے کو تین رکنی ہی سن سکتا ہے ۔ عرفان قادر کا کیس دو رکنی بنچ سن سکتا ہے ۔فوتیدگی کی وجہ سے تیسرے جج موجود نہیں ۔انہوں نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ آپ اگر بیان دے دیں تو بہتر ہوگا ۔سندھو نے کئی اہم نکات اٹھائے ہیں ۔آرٹیکل189 کے تحت اس کی نظیر آنا ضروری ہیں۔ بلدیاتی انتخابات جلد ہوجاتے ہیں ۔بلوچستان میں ہو چکے ہیں ۔کے پی کے میں15 نومبر تک ہونے ہیں ۔

باقی دو صوبوں کا توپتہ ہی نہیں کہ کب انتخابات ہوتے ہیں ۔یہ آئین کا تقاضا ہے کہ بلدیاتی انتخابات کرائے جائیں ۔ان انتخابات میں بھی شاید اس کی ضرورت پڑے وہاں بھی جھگڑے اٹھ کھڑے ہوں گے۔ فلاں امین نہیں ہے فیصلہ آنا ضروری ہے کوئی مثال موجود ہو ہم جو فیصلہ کریں گے ہو سکتا ہے کہ بعض اداروں کو قربانی دینا پڑے ۔یہ جو الفاظ 18 ویں ترمیم کی وجہ سے آئے ہیں ان کی تعریف آئین میں موجود نہیں اس کی تشریح ہمیں ہی کرنا پڑے گی ۔

عدالت عالیہ کے دونوں بنچوں کا فیصلہ ہے کہ درخواست گزار کے سوالات سیاسی ہیں ۔عدالت کو اس قبیلے سے اجتناب کرنا چاہیے ۔کہا گیا ہے کہ عدالت کو اس طرح کے فیصلے کا اختیار کی بجائے اجتناب کرنا چاہیے ۔مسائل کا استدلال آئین کے 62 ،63 پر ہے ۔صادق و امین اگر کوئی شخص نہیں ہے وہ ممبر قومی و صوبائی اسمبلی نہیں بن سکتا ۔جسٹس جواد نے سندھوکی درخواست بھی پڑھ کر سنائی جس میں مزید کہا ہے کہ جب کوئی عدالت کسی شخص کو کاذب یا غیر امین قرار دے تو وہ ممبر قومی وصوبائی اسمبلی نہیں رہ سکتا۔

اس کیس کے نتائج کیا نکلتے ہیں ایک ممبر یا دس ممبر جائیں یا پوری اسمبلی فارغ ہو جائے ہمیں اس سے سروکار نہیں ۔ہم نے آئین و قانون کے مطابق فیصلہ کر دینا ہے۔18 ویں ترمیم سے قبل سپیکر قومی اسمبلی یا چیئرمین سینٹ کو نا اہلی کا اختیار تھا مگر اب یہ اختیار عدالت کو دے دیا گیا ہے۔اصلاحات میں کچھ وقت لگے گا اس کو سمجھیں گے ۔یوسف رضا گیلانی سمیت دیگر لوگوں کے مقدمات کے حوالے بھی دیئے گئے ہیں ۔

سعید الظفر نے آیت اللہ بنام عامر لیاقت کیس میں موقف اختیار کیا گیا کہ آئینی مندرجات کی تشریح صرف عدالت عظمی ہی کر سکتی ہے یہ مثال18 ویں ترمیم سے قبل کی ہے ۔اب ا بارے میں بھی فیصلہ آنا چاہیے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرٹیکل66 کے تحت پارلیمنٹ کی اندرونی کارروائی کو حاصل استثنیٰ بھی زیر بحث آئے گا۔ جسٹس جواد نے کہا کہ سندھو کا کہنا ہے کہ آرٹیکل 66 کو آئین نے آرٹیکل62 ،63 کے تابع رکھا ہے ۔

عدالت اگر کہتی ہے کہ یہ قابل سماعت نہیں ہے۔چار لوگ سپیکر قومی اسمبلی کے پاس بھی گئے ہیں ۔سپیکر نے لکھ دیا کہ آپ مجاز عدالت سے سند لیکر آئیں کہ فلاں صادق اور امین نہیں رہے۔ سپیکر ہمارے پاس اور ہم کہہ دیں کہ یہ قابل سماعت نہیں تو پھر فیصلہ کون کرے گا۔عدالت کو اس بارے فیصلہ کرنا ہی پڑے گا ۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ نقطہ لارجر بنچ میں پہلے ہی اٹھایا جا چکا ہے ۔

جسٹس جواد نے کہا کہ سندھو کہتے ہیں کہ سات رکنی لارجر بنچ بنایا جائے ۔آپ نے شروع ہی سے ہم پر اعتماد کیا ہے ۔آپ نے مجھے فٹ پرسن فار دی کیس قرار دیا تھا اگر میں اس قابل نہیں ہوں تو الگ ہو جاؤں گا ۔یہ سند ہم وکیلوں سے نہیں لیتی ۔ایک ہمیں فٹ دوسرا ان فٹ قرار دے رہا ہے ۔اس کافیصلہ ہم نے کرنا ہے ۔سندھو نے کہا کہ اب فیصلہ ہو جانا چاہیے کہ کس طرح کے لوگوں نے اسمبلی میں جانا ہے ۔

جسٹس جواد نے کہا کہ یہ تو دیکھنا ہی پڑے گا ۔قوم کا کیا حق ہے ۔یہ اس کوضرور بتائیں گے ۔اگر یہ یہاں پر طے نہیں ہوگا تو بہت بڑا مسئلہ ہر انتخاب لڑنے والے پر کھڑا ہو گا۔ جھوٹوں کو شمار شروع ہو جائے گا۔18 کروڑ لوگوں کو اسناد دینے پڑں ی گے کہ یہ صادق اور امین ہیں ۔ہمیں کوئی معیار مقرر کرنا پڑے گا۔ یہ چیز بہت ضروری ہے ۔قوم کے ساتھ حق اور سچ بولنا ہرفرد کی ذمہ داری ہے ۔

چاہے وہ اسمبلی میں ہے یا باہر ہے۔ سچ قوم کی امانت ہے ۔اس حوالے سے معیار مقرر کرنا ہوگا۔ حلیف اٹھانے سے قبل ہی آئین کہنا ہے کہ عوام کی ذمہ داری کوئی کاذب نہ اٹھائے۔ امیر مینائی کا ایک مصرع ہے کہ سچائی اختیار کرو اور غموں سے نجات حاصل کرو۔مقدس انجیل میں بھی بہت کچھ درج تھا۔ ہر ٹی وی پر مختلف بیانات چلتے ہیں ۔جب تجزیہ ہوگا تو سب سچ پر ہی کھا جائے گا۔

اڑھائی بجے سے زیادہ وقت ہو چکا ظہر ہے کہ یہ اہم دلچسپی والا مقدمہ ہے تو سن رہے ہیں ۔عدالت نے حکمنامے میں تحریر کرایا کہ اٹارنی جنرل پیش ہوئے اور ہم نے ان سے خواہش کی کہ وہ سات رز میں جامع جواب داخل کریں تا کہ سندھو کے آئینی و قانونی نکات کو سمجھنے میں آسان ہو۔معاملے کی تہہ تک پہنچیں گے ۔جسٹس فائز عیسی نے کہا کہ آپ کسی سیاسی جماعت سے تعلق رکھتے ہیں۔

عرفان قادر نے کہا کہ وہ تحریک انصاف کی طرف سے نہیں اسحاق خاکوانی کے ہی درخواست گزار ہیں ۔سینئر نائب صدر تحریک انصاف وکلاء فورم میں اور ہمیں بغیر انتخاب کے انتخاب ہوا ہے۔اس پر جسٹس فائز عیسی نے کہا کہ آپ میں جمہوریت نہیں ہے تو اس پر سندھو نے کہا کہ انہوں نے ہی انتخابات پارٹی کرائے ہیں۔عرفان قادر نے کہا کہ وہ مسلم لیگ (ق) کے صدر چوہدری شجاعت حسین کی طرف سے بھی پیش ہو رہے ہیں۔

جسٹس فائز نے کہا کہ اس با ت کا بعد میں اثر ہوگا اس لئے پتہ ہونا چاہیے کہ درخواست گزار کس پارٹی سے تعلق ہے۔عرفان قادر نے کہا کہ عدالت تحریری حکمنامہ جاری کردے کہ اسحاق خاکوانی کی پارٹی پوزیشن واضح کی جائے۔عدالت نے آرڈر میں کہا کہ ہم نے گوہر نواز سندھو سے پوچھا کہ وہ انفرادی طور پر پیش ہو رہے ہیں یا تحریک انصاف کی جانب سے پیش ہو رہے ہیں کیونکہ وہ سینئر وائس پریذیڈنٹ پی ٹی آئی لائرز فورم پنجاب ہیں۔

سندھو نے کہا کہ ہمیں درخواست دائر کرنے کی ہدایت نہیں کی گئی تھی ممکن ہے کہ کی بھی گئی ہو ۔عرفان قادر نے بتایا کہ اسحاق خاکوانی پی ٹی آئی کور کمیٹی کے ممبر ہیں جبکہ گوہرنواز سندھو کے پاس درخواست دائر کرنیکا اختیار نہیں ہے ۔چوہدری شجاعت حسین سابق وزیر اعظم ،سینیٹر اور صدر مسلم لیگ (ق) ہے اس پر عرفان قادر نے کہا کہ وہ مسلم لیگ کے صدر ہیں اس پر عدالت نے ق ہٹوا دیا۔اسحاق خاکوانی ،گوہر نواز سندھو اور چوہدری شجاعت حسین تحریری طور پر آگاہ کریں کہ وہ اپنی جماعت کی طرف سے درخواست دے رہے ہیں یا ذاتی طور پر عدالت آئے ہیں اپنی پوزیشن واضح کریں۔ ۔