بھارت ورکنگ باؤنڈری پر بنکر بنانا چاہتا ہے ،ا جازت نہیں دیں گے، پاکستان

جمعرات 23 اکتوبر 2014 16:25

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔23 اکتوبر۔2014ء) پاکستان نے بھارت کی طرف سے لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری پر بے گناہ شہریوں کو نشانہ بنانے کے واقعات کو جنگ بندی کے سمجھوتے کی واضح خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے اقوام متحدہ سے اس کا نوٹس لینے اور فوجی مبصر گروپ کو مزید مستحکم بنانے کا مطالبہ کیا ہے جبکہ دفتر خارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم نے کہا ہے کہ بھارت متنازعہ علاقوں میں بنکر بنانا چاہتا ہے، اجازت نہیں دیں گے،ایران سے سرحدی تنازعات بھارت جیسی نوعیت کے نہیں،روس کی پاکستان میں سرمایہ کاری چاہتے ہیں،وزیراعظم سارک سربراہ اجلاس میں شریک ہوں گے،ملالہ یوسفزئی پاکستان کی بیٹی ہے ، وہ جب چاہے اپنے وطن واپس آسکتی ہیں اس میں کوئی رکاوٹ نہیں۔

دفتر خارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم نے جمعرات کو دفتر خارجہ میں ہفتہ وار پریس بریفنگ کے دوران کہا کہ پاکستان میں کنٹرول لائن اور ورکنگ باؤنڈری پر بھارت کی فائرنگ کے واقعات کو اقوام متحدہ اور دیگر عالمی فورموں پر اٹھایا ہے۔

(جاری ہے)

اقوام متحدہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ جنگ بندی کی خلاف ورزیاں روکنے کیلئے اقوام متحدہ کے فوجی مبصر مشن کو مزید مستحکم بنائے۔

تسنیم اسلم نے کہا کہ ورکنگ باؤنڈری کے بارے میں سمجھوتے کے مطابق بھارت اور پاکستان 500 میٹر علاقے میں کوئی تعمیرات نہیں کرسکتے۔ بھارت معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نئے بنکر تعمیر کرنا چاہتا ہے جس کی پاکستان اجازت نہیں دے گا۔ ترجمان نے کہاکہ دوسری جانب کنٹرول لائن کی دوسری طرف ہمارے کشمیری بہن بھائی موجود ہیں یہی وجہ ہے کہ پاکستان نے ہمیشہ بھارت کی بلااشتعال فائرنگ اور شہریوں پر گولہ باری کے باوجود محتاط جواب دیا ہے۔

ترجمان نے کہا کہ ایران کیساتھ پرتشدد واقعات بھارت جیسے نہیں۔ پاکستان کے بھارت کیساتھ بنیادی مسائل ہیں جنہیں مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی ضرورت ہے۔ ایران کے بارے میں تسنیم اسلم نے کہاکہ پاکستان اور ایران کے درمیان مختلف شعبوں میں مضبوط تعلقات موجود ہیں۔ پاکستان کی ایران کیساتھ طویل سرحد ہے۔ دونوں ممالک تشدد سے بچنے کیلئے اس سرحد کی موثر مانیٹرنگ کرتے ہیں۔

پاکستانی اور ایرانی سرحدی فورسز کے سربراہوں کی حالیہ ملاقات تہران میں ہوئی اور انہوں نے سرحد کی نگرانی بہتر بنانے کے مختلف طریقوں پر تبادلہ خیال کیا تاکہ رکاوٹوں کو دور کیا جاسکے۔ ترجمان نے کہا کہ وزیراعظم کے مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز نے افغان صدر کو دورہ اسلام آباد کی دعوت پہنچادی ہے اور وہ جلد پاکستان آئیں گے۔ سرتاج عزیز کی کی نئی افغان قیادت سے ملاقاتیں مثبت رہی ہیں۔

دونوں ملک باہمی شراکت داری کو اقتصادی تعلقات میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ بہت سے شعبوں میں تعاون کے ذریعے دوطرفہ تعلقات کو مزید مضبوط بنایا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وسطی ایشیاء کو کابل کے ذریعے پاکستان سے ملانے کی سوچ موجود ہے اور حالیہ ہی میں کاسا 1000 سمجھوتہ اس جانب بڑی پیشرفت ہے۔ دونوں ممالک شراکت داری کو بڑھانا چاہتے ہیں جو ایک صحتمند اشارہ ہے۔

افغانستان میں مفاہمتی سیاست کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں ترجمان نے پاکستان کے اس موقف کو دہرایا کہ وہ افغان قیادت میں ان کے اپنے امن کے عمل میں ہرممکن تعاون پر تیار ہے۔ پاکستان افغانستان میں کسی ایک گروپ کی حمایت ہرگز نہیں کرتا۔ روس کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں تسنیم اسلم نے کہا کہ ہمارے تعلقات بلندی کی طرف گامزن ہیں۔ سٹریٹجک مذاکرات کے ذریعے دونوں ملکوں نے ملاقاتیں کی ہیں اور تجارت سرمایہ کاری‘ سکیورٹی اور دیگر علاقائی مسائل کیساتھ ساتھ تمام شعبوں میں تعاون پر بات ہوئی ہے۔

دونوں ملکوں کا بہت سے امور پر موقف یکساں ہے اور وہ باہمی شراکت داری کو مضبوط بنانا چاہتے ہیں۔ پاکستان روسی سرمایہ کاری کا خواہاں ہے۔ ایک اور سوال کے جواب میں تسنیم اسلم نے کہا کہ امکان ہے کہ وزیراعظم محمد نواز شریف سارک سربراہ اجلاس میں شریک ہوں گے جو آئندہ ماہ کی 26 اور 27 تاریخ کو کٹھمنڈو میں ہورہا ہے۔ ایک اور سوال کے جواب میں ترجمان نے کہا کہ ملالہ یوسفزئی پاکستان کی بیٹی ہے اور اس نے اپنے نیک کاموں سے ملک کا وقار بلند کیا ہے وہ جب چاہے اپنے وطن واپس آسکتی ہیں اس میں کوئی رکاوٹ نہیں.

متعلقہ عنوان :