یمن کے سابق صدر علی عبداللہ صالح حوثی باغیوں کے حامی نکلے

جمعرات 23 اکتوبر 2014 12:51

صنعاء(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔23 اکتوبر۔2014ء) یمن میں زیدی فرقے کے اہل تشیع مسلک سے تعلق رکھنے والے حوثیوں کے دو ماہ سے جاری پرتشدد مظاہروں کے بعد اب یہ انکشاف ہوا ہے کہ حکومت کے خلاف حوثیوں کی بغاوت میں سابق صدر علی عبداللہ صالح کا بھی ہاتھ ہے۔ حوثی شدت پسندوں اور علی صالح نے ایک خفیہ گٹھ جوڑ کے ذریعے حکومت کا تختہ الٹنے کا منصوبہ بنا رکھا ہے۔

اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔23 اکتوبر۔2014ء اخبار ”الوئام“ نے باثوق ذرائع کے حوالے سے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ حوثیوں کے حکومت کے خلاف مسلح مظاہروں سے قبل علی عبداللہ صالح، ان کے وفاداروں اور حوثیوں کا ایک مشترکہ خفیہ اجلاس منعقد ہوا جس میں ملک میں افراتفری پھیلانے اور حکومت کو کمزور کرتے ہوئے اس کا تختہ الٹنے کی سازش تیار کی گئی۔

(جاری ہے)

ذرائع کا کہنا ہے کہ حوثیوں اور علی عبداللہ صالح نے حکومت کے خلاف بغاوت کے لیے خفیہ اجلاس میں حوثیوں کی جانب سے حسین العزمی نے شرکت کی۔ العزمی حوثیوں کے سیاسی شعبے کے سینئر رکن ہیں اور مختلف معاہدوں میں انہیں حوثیوں کی نمائندگی کی ذمہ داری بھی سونپی گئی ہے۔ اجلاس میں جنرل نیشنل کانگریس کے رکن عارف الزوکہ اور کچھ دوسرے عہدیدار بھی شریک ہوئے۔

اجلاس کے دوران سعودی عرب کے شہر جدہ میں مقیم علی صالح کے ایک وفادار سلطان البرکانی سے بھی رابطہ کیا گیا اور ان سے بھی تعاون کی درخواست کی گئی۔خفیہ میٹنگ کے شرکاء نے سلطان برکانی سے کہا کہ وہ سعودی عرب میں حوثیوں کی حمایت اور یمنی حکومت کی مخالفت میں رائے عامہ ہموار کریں، جب حوثی صنعاء پر قبضہ کر لیں تو سعودی عرب میں یہ تاثر قائم کیا جائے کہ حوثیوں کے مطالبات حق بہ جانب ہیں اور انہوں نے حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے جو قدم اٹھایا ہے وہ درست ہے۔ اس موقع کو دیکھتے ہوئے سعودی عرب کی جانب سے حوثیوں کے لیے حمایت حاصل کریں۔ نیز یہ ثابت کریں کہ حوثیوں کا مقابلہ القاعدہ کے خلاف ہے اور حکومت القاعدہ کا تحفظ کر رہی ہے۔

متعلقہ عنوان :