جمہوری حکومتوں کو کام کرنے دیا جاتاتو ملک میں معاشی استحکام ہوتا:سید خورشید شاہ

بدھ 22 اکتوبر 2014 18:14

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔22اکتوبر 2014ء ) قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلا ف سید خورشید شاہ نے کہا ہے کہ پاکستان میں سیاسی عدم استحکام کے باعث جمہوری حکومتوں کو عوامی فلاحی منصوبوں پر کام کرنے کا موقع نہیں ملا، جوبھی حکومت آتی ہے اس کی ساری توانائیاں حکومت بچانے پر صرف ہوجاتیں ہیں جس کی وجہ سے معاشی بحالی کے منصوبوں پر کام کرنے میں ناکام رہی ہیں ۔

بدھ کو انہوں نے ان خیالات کا اظہار سینٹر فار پاکستان اینڈ گلف سٹڈیز میں سندھ میں معاشی بحالی : ویژن 2020کے عنوان سے منعقدہ گول میز مذاکرے سے خطا ب کرتے ہوئے کیا ۔ مذاکراے میں سی پی جی ایس کی صدر سینیٹر سحر کامران ، پائیڈ کے معاشی ماہر ڈاکٹر حسن محسن کے علاوہ مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی ۔

(جاری ہے)

مذاکراے سے خطا ب کرتے ہوئے سید خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ یہ درست ہے کہ جمہوری حکومتیں بڑے فیصلے نہیں کر سکیں جبکہ آمرانہ دور میں بڑے فیصلے ہوئے ۔

پاکستان پیپلز پار ٹی کی حکومت نے تاریخ میں پہلی مرتبہ جمہوری پانچ سال مکمل کئے،1947سے لیکر 1958تک حکومتوں کے اوسط مدت آٹھ ماہ سے زیادہ نہیں رہی جبکہ 2008تک پاکستان کی تاریخ میں پر امن انتقال اقتدار ممکن نہیں ہوسکا جس کی وجہ سے حکومتیں اپنے معاشی ایجنڈوں پر عملدرآمد کرنے میں ناکام ہیں اور پاکستان کی معاشی بد حالی کی بڑی وجہ بھی یہی ہے ۔

انہوں نے مزید کہا کہ چین اور بھارت دنیا کی بڑی معیشتیں پاکستان کے ہمسائے ہیں جن کے وسائل سے استعفاد کیا جاسکتا ہے۔ جس ملک مواصلات بہترہو تو اس کی معیشت کمزرو نہیں ہوسکتی، پاکستان خطے میں بہترین رابطے کا ذریعہ بن سکتا ہے ۔ گوادر بندرگاہ کے ذریعے افغانستان اور چین سمیت وسطی ایشیا ئی ریاستوں کو راہداری مہیاہوسکتی ہے جس پاکستان میں پائید ار معیشت ممکن ہوسکتی ہے۔

1975سے لیکر گوادر پر کام چل رہا ہے لیکن بد قسمتی سے ابھی تک مکمل نہیں ہوسکا۔ ایک جرنیل نے گوادر بندر گاہ تعمیر کے لئے سنگا پور کو دیدیا جس نے خوشدلی سے کام نہیں کیا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے گذشہ دور حکومت میں گوادر کی تعمیر کا منصوبہ چین کو دیا، تاہم سیاسی عدم استحکام کے باعث اس پر بھی کام سست روی کا شکا رہوگیا ہے۔ انہیں نے موجودہ حکومت کو حدف تنیقد بناتے ہوئے کہا کہ موجودہ حکومت کے پاس پائیدار معاشی ترقی کا کوئی منصوبہ نہیں ہے ، ایسے منصوبے متعارف کرائے ہیں جہاں پر رقم صرف ہوتی ہے نہ ایسے منصوبوں کاآغازکیا جائے جن سے ذرائع آمد ن کے مواقع بھی پیدا ہوں ۔

قائد حزب اختلاف کا کہنا تھا کہ ایک زرعی ملک ہونے کی وجہ سے پانی کے وسائل سب سے بڑا چیلنج ہے ، آئندہ دس سے پندر ہ سال میں پاکستان کو پانی کی قلت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ انہوں نے تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کی طرف نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ قیام پاکستان کی نسبت آج پاکستان کی آبادی میں کئی گنا ہ اضافہ ہوچکا ہے تاہم پانی کے وسائل میں اضافہ نہیں ہوا۔

دریا اور گلیشئر وہی ہیں ان میں اضافہ نہیں ہوا۔ ان کا کہنا تھا کہ فوری طورپر بڑے ڈیم بنانے کے بجائے چھوٹے بہتے دریاؤں میں چھوٹے چھوٹے منصوبے بنائے جاسکتے ہیں ۔ انہوں نے پاکستان کی بد قسمتی ہے کہ گورے کے بنائے ہوئے نظام میں بہتری لانے بجائے اسے تباہ کیا گیا ہے۔ انگریزوں نے پورے ملک میں ریلوے کا نظام دیا جسے ہم تباہ کر دیا۔ ایسے اداروں اور منصوبوں کی ضرورت ہے جہاں آمدنی آئے نہ کہ سفید ہاتھی بن جائیں جنہیں الٹا سنبھالنا مشکل ہوجائے، بھٹونے 1970میں کہا تھا کہ واپڈا سفید اہاتھی ہے آج درست ثابت ہو رہاہے۔

واپڈا کے قیام کے وقت ایک سیکریٹری نے تھرمل سے بجلی پیدا کرنے کے حوالے اپنا ایک اختلافی نوٹ لکھا تھا آج درست ثابت ہواہے۔ اس موقعہ پر سینیٹر سحرکامران نے قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ کے سیاسی ومعاشی ویژن کی تعریف کی اس کے علاوہ دیگر شرکا نے بھی بحث میں حصہ لیا۔

متعلقہ عنوان :