بجلی کی ترسیل کا موجودہ نظام 15 تا 20 ہزار میگاواٹ بجلی کی ترسیل برداشت نہیں کرسکتا ، ملک بھر میں نئی ٹرانسمیشن لائن‘ گرڈ اور ٹرانسفارمرز کی تنصیب کا عمل جاری ہے؛عابد شیر علی

منگل 21 اکتوبر 2014 15:44

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔21 اکتوبر۔2014ء) وزیر مملکت برائے پانی و بجلی عابد شیر علی نے کہا ہے کہ موجودہ حکومت نے 2013ء سے لے کر اب تک بجلی کی رسد بڑھا کر طلب کو کنٹرول کیا ہے،دسمبر‘ جنوری میں نئے داسو ڈیم کا مالیاتی سال ختم ہونے کے بعد اس پر کام شروع کردیا جائے گا، اسی مدت میں ہائیڈل سے بجلی کی پیداوار کے دو منصوبے بھی شروع کئے جارہے ہیں۔

منگل کے روز سینٹ کے اجلاس کے دوران وقفہ سوالات مختلف سوالات کے جواب دیتے ہوئے عابد شیر علی کا کہنا تھا کہ بجلی کی پیداواری صلاحیت 21 تا 22 ہزار میگاواٹ ہے تاہم فرنس آئل پر چلنے والے منصوبے فرسودہ ہیں اور سب سے بڑا مسئلہ نظام کی خرابی ہے کہ موجودہ بجلی کا نظام اضافی 15 تا 20 ہزار میگاواٹ بجلی کی ترسیل برداشت نہیں کرسکتا تاہم نظام کو بہتر کرکے ترسیلات کو بہتر بنایا جائے گا اس حوالے سے ملک بھر میں نئی ٹرانسمیشن لائن‘ گرڈ اور ٹرانسفارمرز کی تنصیب کا عمل جاری ہے۔

(جاری ہے)

عابد شیر علی نے کہا کہ وہ ماضی کے اختلافات میں نہیں جانا چاہتے ورنہ بہت سی باتیں ہوسکتی ہیں تاہم وہ ایوان کا ماحول خراب نہیں کرنا چاہتے۔ اگر کوئلے کی بات کریں تو ایک کوئلے سے بجلی پیدا کرنے والے پلانٹ کی تنصیب کیلئے بھی 30 ماہ کا عرصہ درکار ہے۔ گذشتہ حکومتوں نے معاہدے کئے موجودہ حکومت تو ادائیگیاں کرکے نظام کو چلانے کی کوشش کررہی ہے۔

آئی پی پیز کو ادا کی جانے والی ادائیگیوں سے گردشی قرضوں کا بوجھ کم ہوا ہے،جسکی آئندہ اجلاس میں رپورٹ پیش کردی جائے گی جس پر چیئرمین نے سوال ملتوی کرتے ہوئے آئندہ اجلاس میں آڈٹ رپورت طلب کرلی۔ کے ای ایس سی نے حکومت پاکستان کے 32.19 ارب روپے ادا کرنے ہیں ان سے 17 ارب روپے کا فوری مطالبہ کیا ہے۔ وزیر مملکت نے بتایا کہ کے ای ایس سی سے 2010ء میں 300 میگاواٹ کا معاہدہ ہوا تھا جسے بعد میں 625 میگاواٹ تک بڑھادیا گیا۔

معاملہ عدالت میں ہے مگر حکومت نے اس معاہدے کی صحت کو بھی عدالت میں چیلنج کررکھا ہے۔ کے ای ایس سی کے اضافی بلوں کا معاملہ وزارت دیکھے گی۔ عابد شیر علی نے کہا کہ حکومت زرعی شعبے کو 33.973 ارب روپے کی تلافی (سبسڈی) فراہم کررہی ہے۔ بلوچستان کے زرعی شعبے کو کافی رعایتیں فراہم کررہی ہے۔ وزیر مملکت برائے پانی و بجلی نے ایوان کو بتایا کہ بھارت راوی‘ ستلج اور بیاس پر ڈیم بنانے اور پانی ذخیرہ کرنے کا مکمل حق رکھتا ہے جبکہ پاکستان مغربی دریاؤں پر حق رکھتا ہے تاہم مغربی دریاؤں میں رن آف دی ریور پر پاکستانی پانی ذخیرہ نہیں کرسکتا۔

متعلقہ عنوان :