حکومت سندھ کراچی میں امن وامان قائم کرنے کی پوری کوشش کرے گی جو بھی امن خراب کرنے کی کوشش کرے گا سختی سے نمٹیں گے،وزیراعلیٰ سندھ

پیر 20 اکتوبر 2014 19:51

کراچی ( اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔20 اکتوبر۔2014ء ) وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے کہا ہے کہ اگر کوئی حکومت سے الگ رہنا چاہتا ہے تو ٹھیک ہے لیکن حکومت سندھ کراچی امن وامان قائم کرنے کی پوری کوشش کرے گی اور جو بھی امن خراب کرنے کی کوشش کرے گا ، اس سے سختی سے نمٹیں گے ۔ ہم نے کبھی زبان کی بنیاد پر فرق نہیں کیا ۔ نوکریاں سب زبانیں بولنے والوں کو میرٹ کی بنیاد پر دیں ۔

کراچی میں سب سے زیادہ ترقیاتی بجٹ مختص کیا گیا ۔ وہ پیر کو سندھ اسمبلی کے اجلاس میں ایم کیو ایم کے ارکان کی جانب سے بائیکاٹ کے بعد خطاب کررہے تھے ۔ وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا کہ ہر ایک کو اپنی پارٹی کی نمائندگی کرنے کا حق ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ایوان میں لسانیت اور فرقہ واریت کی باتیں کی جاتی ہیں ۔

(جاری ہے)

ایم کیو ایم والے یہ کہتے ہیں کہ ان پر ظلم ہوا ہے ۔

پیپلز پارٹی کے سوا کون سی دوسری پارٹی ہے ، جس نے ظلم سہے ہوں گے ۔ ہمارے قائدین کو شہید کیا گیا ۔ ہمارے کارکنوں کو تختہ دار پر لٹکایا گیا اور گولیوں اور بموں سے قتل کیا گیا ۔ مجھ پر 29 قتل کے کیس بنائے گئے ۔ ہم سے زیادہ کس نے ظلم برداشت کیے ۔ انہوں نے کہا کہ کراچی میں وزیر اعظم نواز شریف نے تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ مشاورت کرکے ٹارگیٹڈ آپریشن شروع کرایا تھا ۔

یہ آپریشن بلا تفریق تھا اور ہے اور اس کی گواہی کراچی کے عوام دیں گے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے 18 اکتوبر کو محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پہلا تاریخی جلسہ کیا ۔ اس پر ہمیں بظاہر تو مبارک باد دی گئی لیکن جلسے پر تنقید کی گئی ۔ انہوں نے کہا کہ میں یہ نہیں کہتا کہ کراچی میں سب کچھ ٹھیک ہو گیا ہے ۔ ہمیں بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے ۔ پیپلز پارٹی کے 250 سے زائد کارکن شہید ہوئے ۔

وہ بھی انسان تھے اور کوئی زبان بولنے والے تھے ۔ انہیں کس نے قتل کیا ؟ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کئی مشہور دہشت گردوں کو گرفتار کیا ہے ۔ ان کا تعلق کس کمیونٹی اور کس پارٹی سے ہے ؟ میں ابھی نہیں بتاوٴں گا ۔ اگر مجھے چیلنج کیا گیا تو پھر میں نام بھی لوں گا اور ان کے جرائم پولیس اور عدالتوں کے ریکارڈ اور ثبوت کے ساتھ پیش کروں گا ۔

انہوں نے کہاکہ ہمیں تو کام ہی نہیں کرنے دیا گیا ۔ ہم تو صرف روٹھنے اور منانے میں لگے ہوئے ہیں ۔ ہم نے اگر کوئی مفاہمت کی تو اس کی کوئی خفیہ شرائط نہیں تھیں ۔ صرف یہ شرائط تھیں کہ پاکستان اور سندھ کی خدمت کی جائے ۔ سندھ کو تحفظ اور ترقی دی جائے ۔ مسلم لیگ (فنکشنل) کے لوگ بھی ہمارے ساتھ تھے ۔ ہم نے سب کو گلے لگایا ۔ انہں نے کہا کہ اندرون سندھ کے علاقوں کو دانستہ تباہی کی طرف لے جایا گیا ۔

اب ہمیں طعنہ دیا جاتا ہے کہ وہاں ریت اور دھول اڑ رہی ہے ۔ میں پوچھتا ہوں کہ پنجاب کے تھل میں کتنی ترقی ہوئی ہے ۔ آج سندھ کے تھر کو آکر دیکھیں ۔ ہم نے وہاں سڑکوں کا جال بچھا دیا ہے ۔ مٹھی شہر اور اس کے اسپتال کو جا کر دیکھیں ۔ ہم نے وہاں بہت کچھ بدل دیا ہے اور مزید بدلیں گے ۔ انہوں نے کہا کہ کراچی میں بھی بہت کام کیا گیا ہے ۔ ہم نے اپنی گذشتہ حکومت میں کراچی میں ترقیاتی کاموں کے لیے 34 ارب روپے خرچ کیے ۔

میں اس کا حساب دینے کے لیے تیار ہوں ۔ رواں سال بھی صوبائی سالانہ ترقیاتی پروگرام ( اے ڈی پی ) میں کراچی کے لیے 26 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جبکہ ضلعی اے ڈی پی اور غیر ملکی منصوبوں کو ملا کر رواں سال کراچی کا ترقیاتی بجٹ 35 سے 40 ارب روپے ہے ۔ اس میں سے اب تک ساڑھے چار کروڑ روپے خرچ بھی ہو چکے ہیں ۔ اندرون سندھ میں تو کروڑوں کے منصوبے ہوتے ہیں ۔

کراچی میں تو اربوں کے منصوبے ہیں ۔ پانی کے منصوبے کے ۔ 4 پر ہم ہی کام کر رہے ہیں ۔ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو نے 1993-94ء میں کراچی کے لیے 121 ارب روپے کا پیکیج دیا تھا ۔ دنیا جانتی ہے کہ ان کا پرنسپل سیکرٹری کون سی زبان بولتا تھا ۔ انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم والے نوکریوں پر اعتراض کرتے ہیں ۔ میں وزیر اعلیٰ ہوں ۔ انہوں نے ہمیں بتایا بھی نہیں کہ کے ایم سی اور واٹر بورڈ میں کتنے لوگوں کو نوکریاں دی گئیں ۔

ہم نے ایم کیوایم کو اس صوبے اور شہر کی بہت بڑی ذمہ داریاں دیں اور ان سے پوچھا تک بھی نہیں ۔ انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی میں ہر زبان بولنے والے لوگ ہیں اور ہم کوئی تفریق نہیں کرتے ۔ وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا کہ کراچی کے میٹرک اور انٹر بورڈز کے چیئرمین کون ہیں اور وہاں ملازمت کرنے والے زیادہ تر لوگ کون ہیں ۔ کراچی میں تین جامعات اور دو میڈیکل یونیورسٹیز کے وائس چانسلرز کون ہیں ۔

انہیں رکھنا ہم نے ہوتا ہے لیکن ہم نے تو کبھی یہ امتیاز نہیں کیا کہ کون کیا زبان بولتا ہے ۔ کراچی یونیورسٹی صوبہ سندھ کی ہے لیکن وہاں کی داخلہ پالیسی یہ ہے کہ شمالی علاقہ جات ، آزاد کشمیر اور دیگر صوبوں کے طلبہ کے لیے تو کوٹہ ہے لیکن سندھ کے بچے وہاں نہیں پڑھ سکتے ۔ وہاں یہ بھی دیکھا جائے کہ ملازمین کون ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ صرف سیاسی کھیل نہیں کھیلنا چاہئے ۔

ہم نے ملازمتوں میں کبھی امتیاز نہیں برتا ۔ محکمہ تعلیم میں 28 سے 30 ہزار بھرتیاں میرٹ کی بنیاد پر کیں اور اس میرٹ پر کسی نے اعتراض نہیں کیا ۔ گریڈ 16 سے اوپر کی تمام اسامیاں پبلک سروس کمیشن کے ذریعہ پر کی گئیں ۔ ہر زبان بولنے والوں کو نوکری ملی ۔ انہوں نے کہا کہ وہ ایشو اٹھایا جائے ، جس میں صداقت ہو ۔ معاملات کو سیاسی رنگ دینے کی ضرورت نہیں ۔

ایم کیو ایم کا اپنا سیاسی پروگرام ہو گا لیکن ایسی باتیں نہ کی جائیں کہ دوسرے لوگ بھی باتیں کرنے لگیں ۔ ہم کوئی فرق نہیں کرتے ۔ ہم میرٹ پر نوکریاں دیتے ہیں ۔ حقیقت پسندی ہونی چاہئے ۔ ہمارے شریک چیئرمین آصف علی زرداری خود ان کے پاس چل کر گئے اور ساتھ مل کر کام کرنے کی دعوت دی حالانکہ اس پر ہمارے کچھ لوگ ناراض بھی ہوئے لیکن ہم نے مفاہمت کو ترجیح دی ۔

متعلقہ عنوان :