غزہ جنگ سے متاثرہ سوا لاکھ فلسطینی اب بھی امدادکے منتظرہیں،اقوام متحدہ،غزہ کے اسکولوں میں اسلحہ کا اسرائیلی الزام بے بنیاد ہے،عالمی توجہ غزہ متاثرین کی جانب کرانامشکل ہورہاہے،پیرکراھنپول

منگل 30 ستمبر 2014 19:53

نیویارک(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔30ستمبر۔2014ء) اقوام متحدہ کے فلسطینی پناہ گزینوں کی بحالی کے ادارے”اونروا“ کے سربراہ پیر کراھنپول نے کہا ہے کہ غزہ کی پٹی میں اسرائیل کی 51 روزہ جارحیت کے نتیجے میں بے گھر ہونے والے سوالا کھ فلسطینی اب بھی بے یارو مدد گار کھلے آسمان تلے زندگی گذارنے پر مجبور ہیں،داعش کے خلاف عالمی برادری کے آپریشن کے نتیجے میں غزہ میں بحالی اور امدادی کام متاثر ہو رہے ہیں۔

یو این مندوب نے ان خیالات کا اظہارعرب ٹی وی سے بات چیت میں کیا، انہوں نے غزہ کی پٹی پر اسرائیلی فوج کی وحشیانہ بمباری اور اس کے نتیجے میں ہونے والی تباہی و بربادی اور شہریوں کی مشکلات کا تفصیل سے نقشہ کھینچا۔کراھنپول کا کہنا تھا کہ اس وقت عالمی برادری کی زیادہ توجہ شام اور عراق میں دہشت گردی میں ملوث تنظیم دولت اسلامی کے خلاف کارروائی پر مرکوز ہے۔

(جاری ہے)

اس لیے فوری طور پر عالمی توجہ غزہ کے متاثرین کی طرف مبذول کرانا مشکل ہو رہا ہے۔اقوام متحدہ کے عہدیدار کا کہنا تھا کہ غزہ کی پٹی میں 08 جولائی 2014ء کے اسرائیلی حملے سے قبل میں نے شہر کا دورہ کیا تو مجھے وہاں کے حالات دیکھ کر سخت رنج ہوا، کیونکہ بے روزگاری اور غربت اپنی انتہا پر تھے اور شہر کے 08 لاکھ باشندے عالمی امداد کے منتظر تھے۔ غزہ پر اسرائیلی حملے کے بعد صورت حال مزید ابتر ہوگئی تاہم عالمی برادری کی جانب سے امداد کے وعدوں کے بعد امید کی ایک نئی کرن پھوٹی ہے۔

ایک سوال کے جواب میں اونرو کے سربراہ نے کہا کہ دوسرے ملکوں میں عارضی طور پر مقیم فلسطینی پناہ گزینوں کی حالت بھی تسلی بخش نہیں۔ شام میں خانہ جنگی کے باوجود اب بھی 04 لاکھ 50 ہزار فلسطینی پناہ گزین موجود ہیں۔ جبکہ ایک تلخ حقیقت یہ ہے کہ شام سے نصف ملین فلسطینی پناہ گزین خانہ جنگی کے باعث دوسرے ملکوں میں نقل مکانی پرمجبور ہوئے ہیں۔ شام کی نسبت اردن میں 14 ہزار اور لبنان میں 40 ہزار فلسطینی پناہ گزین نسبتا بہتر زندگی گذار رہے ہیں۔ اس وقت اقوام متحدہ اور بین الاقوامی امدادی تنظیموں کی پوری کوشش فلسطینی پناہ گزینوں کو بہتر تعلیم، صحت ، رہائش اور خوراک کی فراہمی پر مرکوز ہے۔

متعلقہ عنوان :