قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 122کو کھولنے کے فیصلے کا خیرمقدم،

یہ فیصلہ تمام متنازعہ حلقوں کے بارے میں 14ماہ قبل ہی کیا جاتا تو ملک اس افراتفری کا شکار نہ ہوتا،الیکشن کمیشن سیاسی جماعتوں کی حقیقی شکایات کا ازالہ کرے،افضل خان

پیر 22 ستمبر 2014 20:55

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔22ستمبر۔2014ء) الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سابق ایڈیشنل سیکرٹری محمد افضل خان نے کہاہے کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے قومی اسمبلی کے حلقے این اے 122کو کھولنے کے فیصلے کو خوش آئند اور تازہ ہوا کے جھونکے سے تشبیہ دیتے ہوئے کہاہے کہ اگر یہ فیصلہ تمام متنازعہ حلقوں کے بارے میں 14ماہ قبل ہی کیا جاتا تو ملک اس افراتفری کا شکار نہ ہوتا۔

الیکشن کمیشن کو چاہئے کہ جن جن حلقوں کے بارے میں سیاسی جماعتوں کی حقیقی شکایات ہیں ان شکایات کے ازالے کیلئے فوری اقدامات کرے تاکہ عوام کا موجودہ انتخابی نظام پر اعتماد بحال ہوسکے۔اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔22ستمبر۔2014ء کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے الیکشن کمیشن کے سابق ایڈیشنل سیکرٹری محمد افضل خان نے کہاکہ ملک میں صاف اور شفاف انتخابات کا انعقاد الیکشن کمیشن کی آئین ذمہ داری ہے مگر یہ دیکھا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن کے معزز ممبران کی توجہ الیکشن کمیشن میں بھرتیوں ترقی و تبادلوں اور دیگر انتظامی امور پر مرکوز ہوتی ہے جو بنیادی طور پر الیکشن کمیشن کے انتظامی سربراہ یعنی سیکرٹری الیکشن کمیشن کا استحقاق ہے۔

(جاری ہے)

ایک سوال کے جواب میں محمد افضل خان نے بتایا کہ انہوں نے کبھی بھی اپنی ملازمت کی توسیع کے بارے میں کسی خواہش کا اظہار کیا ہے اور نہ ہی کوئی درخواست دائر کی ہے اور اگر ایسی کوئی درخواست موجود ہے تو اسے میڈیا کے سامنے پیش کی جائے۔ میڈیا پر اپنی کردار کشی اور الزامات کے خلاف عدالتی چارہ جوئی کے سوال پر سابق ایڈیشنل سیکرٹری نے کہا کہ ریکارڈ کی درستگی کے لئے یہ حقائق میڈیا کے سامنے پیش کر رہا ہوں اوراپنے خلاف الزام تراشی کرنے والے اداروں کے خلاف عدالتی چارہ جوئی کا حق محفوظ رکھتا ہوں جنہوں نے میری کردار کشی کی اور کہا کہ میں بنی گالہ میں عمران خان کے گھر میں رہتا ہوں اور ممبر الیکشن کمیشن ریاض کیانی کے میرے ملازمت میں توسیع کی جھوٹی خبر کو بڑھا چڑھا کر پیش کیااور مخصوص بلیک میلنگ کے انداز میں مختلف پروگراموں میں مجھے طنزیہ انداز میں پیش کیا۔

اسی میڈیا گروپ نے لکی مروت سے تعلق رکھنے والے ایک ڈاکٹر کی تصویر کو میری تصویر قرار دیتے ہوئے مہم چلائی کہ میں عمران خان کی پارٹی سے تعلق رکھتا ہوں اس میڈیا گروپ کے دست برد سے میرے جیسا عام پاکستانی تو کیا ملک کی سیکورٹی کے ادارے بھی محفوظ نہیں ہیں حقیقت یہ ہے کہ نہ تو میں آج تک بنی گالہ دیکھا ہے اور یہ ہی عمران خان کی پارٹی سے تعلق رکھتا ہوں ۔

موجودہ الیکشن کمیشن کی ملک میں آئین کے مطابق صاف اور شفاف الیکشن کے انعقاد کی صلاحیت کے بارے میں کئے جانے والے سوال کا جواب دیتے ہوئے سابق ایڈیشنل سیکرٹری الیکشن نے بتایا کہ پروین شاکر کی زبان میں بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی :اگر پاکستان میں ایسے انتخابات کرانے ہوں جس میں ہر پاکستانی بے خوف و خطراپنی مرضی اور پسند کے امیدوار کو ووٹ دے سکے اور اس کا ووٹ شمار ہو اور انتخابات جعلی ووٹوں بدمعاشی اور غنڈہ گردی سے عنقا ہو تو آئین پاکستان کو تبدیل کرکے ممبران الیکشن کمیشن کا انتخاب ریٹائرڈ ججز صاحبان کی بجائے انتظامی اور انتخابی امور کے ماہرین قابل اعتماد اور شفاف ماضی رکھنے والے ریٹائزڈ سرکاری افسران میں سے کیا جائے جس طرح ہندوستان میں ہے، ہندوستان کی پارلیمنٹ نے ان کو بھرپور اختیارات دئیے ہوئے ہیں اور پاکستان کی مقننہ بھی الیکشن کمیشن کو وہ تمام اختیارات سونپ دے جو انڈین الیکشن کمیشن کے پاس موجود ہیں ہندوستان کی طرح پاکستان میں بھی مرحلہ وار انتخابات ہونے چاہئیں اور الیکشن کا انعقاد کرنے والے تمام ڈی آر اوز اور آر اوز کا تقرر الیکشن کمیشن کرے اور ان کو جزا اور سزا دینے کا اختیار بھی الیکشن کمیشن کے پاس ہونا چاہئے،2013کے انتخابات میں دھاندلی کی ہزاروں شکایات کے باوجود الیکشن کمیشن نے کسی بھی آر او، ڈی آر اور یا پریزائیڈنگ آفیسر سے کوئی پوچھ گجھ نہیں کی ایسا لگتا ہے کہ جو بھی نتائج الیکشن کمیشن کو بھیجے گئے ان پر مخالف امیدواروں کی اعتراضات کے باوجودانہی متنازعہ نتائج کو تسلیم کیا گیاسابق ایڈیشنل سیکرٹری الیکشن کمیشن نے کہاکہ انتخابات میں دھاندلی کا شکار امیدواروں کو پہلے پہل غیر دوستانہ آراوز اور ڈی آر اوز کا سامنا کرنا پڑا اس کے بعد الیکشن کمیشن کی جانب سے انہیں کہا گیا کہ اپ لوگ الیکشن ٹریبونل میں جائیں جو آپ لوگوں کو 120دنوں کے اندر اندر انصاف دینے کا پابند ہے لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ انہیں کہیں سے بھی انصاف نہ مل سکا اور آج حالات سب کے سامنے ہیں۔

محمد افضل خان نے کہاکہ صاف اور شفاف الیکشن پاکستان کی ضرورت بن چکا ہے اور ایک ایسے انتخابی نظام کی اشد ضرورت ہے جو کمزور اور طاقتور کیلئے یکساں ہو اور جہاں پرووٹر بے خوف و خطر اپنا حق رائے دہی استعمال کر سکے اور اسی طریقے سے پاکستان کے انتخابی نظام پر تمام سیاسی جماعتوں اور عوام کا اعتماد بحال ہوسکے گا۔