راولپنڈی، فرقہ وارانہ ہلاکتوں کے بعد حالات بدستور کشیدہ

پیر 22 ستمبر 2014 12:51

راولپنڈی(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔22ستمبر۔2014ء)راولپنڈی میں فرقہ وارانہ ہلاکتوں اور جلاوٴ گھیراوٴ کے بعد حالات بدستور کشیدہ ہیں اور شہر میں امن و امان قائم رکھنے کے لیے پولیس کی مزید نفری تعینات کر دی گئی ہے۔میڈیارپورٹ کے مطابق دارالحکومت کے جڑواں شہر میں یہ کشیدگی گزشتہ روز اتوار کو اس وقت شروع ہوئی تھی جب راجہ بازار کے علاقے میں واقع مدرسے دارالعلوم تعلیم القرآن کے نائب مہتمم امان اللہ کو دھمیال روڈ پر فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا تھا۔

امان اللہ کا تعلق تنظیم اہلِ سنت و الجماعت سے تھا اور تنظیم کے مطابق یہ گذشتہ چھ ماہ میں راولپنڈی میں ہدف بنا کر ہلاک کیے جانے والے ان کے آٹھویں رہنما تھے۔مقامی پولیس کا کہنا ہے کہ امان اللہ کی ہلاکت کی اطلاع ملنے پر ان کے مدرسے کے طلبا سمیت جماعت کے کارکنوں نے احتجاج شروع کر دیا اور اس دوران مدرسے کے قریب اولڈ ٹائر مارکیٹ میں ایک امام بارگاہ اور دکانوں کو نذرِ آتش کر دیا گیا۔

(جاری ہے)

پولیس کے مطابق اتوار کی شب لگائی گئی اس آگ سے دکانیں اور امام بارگاہ کی عمارت مکمل طور پر تباہ ہوگئی۔مقامی آبادی کا کہنا ہے کہ امام بارگاہ کی عمارت کو ہدف بنا کر جلایا گیا ہے۔راولپنڈی کیگنج منڈی تھانے کے ایک اہلکار کے مطابق امام بارگاہ کی عمارت سے ایک شخص کی لاش ملی ہے جس کا نام قربان بتایا گیا ہے اور مقامی آبادی کے مطابق اس کا ذہنی توازن درست نہیں تھا۔

پولیس کا کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والے مذہبی رہنما کی لاش پوسٹ مارٹم کے بعد ورثا کے حوالے کر دی گئی ہے جبکہ اس حملے میں زخمی ہونے والے لڑکے کی حالت بدستور نازک ہے۔اہلِ سنت و الجماعت کے مقتول رہنما کی نمازِ جنازہ پیر کو ادا کی جائے گی اور پولیس حکام کے مطابق اس موقع پر حالات قابو میں رکھنے کے لیے مزید نفری تعینات کی گئی ہے۔پیر کو راولپنڈی کے مرکزی علاقے میں دکانیں بند ہیں اور شہر میں خوف و ہراس پایا جاتا ہے۔

شہر کی انتظامیہ نے حالات کو مزید بگڑنے سے بچانے کے لیے فریقین کے رہنماوٴں کا اجلاس طلب کیا ہے۔خیال رہے کہ ہلاک ہونے والے مفتی امان اللہ کا تعلق اسی مدرسے سے ہے جو گذشتہ برس عاشورہ محرم پر فرقہ وارانہ فسادات کا مرکزی مقام تھا۔ان فسادات میں کم از کم دس افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے تھے جبکہ علاقے میں کئی دن تک کرفیو نافذ رہا تھا۔