دھرنوں کیخلاف قرارداد کا مسودہ آصف علی زر داری کو فیکس کیا گیا ‘ منظوری کے بعد ایوان میں پیش کیا گیا

ہفتہ 20 ستمبر 2014 12:44

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔20ستمبر۔2014ء) پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے دھرنوں کے خلاف اور پارلیمنٹ کی بالادستی کی قرارداد کے مسودے کی منظوری آصف علی زر داری سے لینے کے بعد حمایت کی یقین دہانی کرائی ۔نجی ٹی وی کے مطابق وزیراعظم نواز شریف سے تمام پارلیمانی رہنماؤں کی ملاقات کے حوالے سے ذرائع نے بتایا کہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں قرارداد کو پیش کیے جانے سے قبل تبادلہ خیال کیا گیا تاہم پیپلزپارٹی نے حکومت کو فری پاس دینے سے انکار کردیاجس کے نتیجے میں وزیراعظم کا ایوان سے خطاب اور قرارداد کو پیش کیے جانے کا عمل نماز جمعے کے بعد تک کیلئے التوا کا شکار ہوگیا ورنہ حکومت کا منصوبہ تھا کہ سب کچھ نماز سے پہلے کرلیا جائے۔

پارلیمانی سربراہان کے اجلاس میں شریک ایک شخص نے نجی ٹی و ی کو بتایا کہ اجلاس صبح ساڑھے دس بجے کے قریب شروع ہوا اور ہم نے ایک گھنٹے کے اندر قرارداد تیار کرلی مگر پیپلزپارٹی کی جانب سے یہ اصرار کیا گیا کہ وہ اس کی پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری سے منظوری لیں گے جس کے باعث پارلیمنٹ کا اجلاس دوپہر تک جاری رہا۔

(جاری ہے)

قرارداد کے مسودے کو حتمی شکل دیئے جانے کے بعد قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے کہا کہ ان کی جماعت کے اراکین پارلیمنٹ اس کی آصف زرداری سے منظوری چاہتے ہیں۔

ذرائع کے مطابق آصف زرداری اس وقت سو رہے تھے جب قرارداد کا مسودہ انہیں فیکس کیا گیا، جس کے بعد انہوں نے مواد کے بارے میں معلومات کیلئے وقت لیا جس کی وجہ سے وزیراعظم کا پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب تین بجے سہ پہر کو شروع ہوا اور اس کے بعد ایوان کی کارروائی ملتوی کردی گئی۔حکومتی اتحادی محمود خان اچکزئی، مولانا فضل الرحمان اور کچھ ن لیگ کے رہنماؤں نے مظاہرین کے خلاف طاقت کے استعمال کا مطالبہ کیا مگر پیپلزپارٹی اس طرح کا اقدام نہیں چاہتی تھی۔

پیپلزپارٹی کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ یہی وجہ ہے کہ آصف زرداری سے مشاورت کی گئی اور شریک چیئرمین اپنی جماعت کو طاقت کے استعمال کو درست قرار دینے کا حصہ نہیں بنانا چاہتے تھے آخرکار پی پی پی سب سے بڑی حزب اختلاف کی جماعت ہے۔ایک سنیئر حکومتی عہدیدار نے بتایا کہ ہم سخت الفاظ والی قرارداد چاہتے تھے جس میں پی اے ٹی اور پی ٹی آئی کے حامیوں سے ریڈ زون سے طاقت کے زور پر نکالنے کا مطالبہ بھی شامل ہوتا جس کی ایوان نے حمایت بھی کی تھی، مگر آخر میں حکومت کو معتدل قرارداد پر اکتفا کرنا پڑا جس میں دھرنوں کی صرف مذمت کرتے ہوئے ریاستی اداروں کے تقدس کو برقرار رکھنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

متعلقہ عنوان :