حالیہ سیلابوں کے دوران حکومتی کوتاہیوں کے جائزہ کیلئے عدالتی کمیشن قائم کیاجائے‘ جماعت اسلامی ،

بھارت کو ہمارے دریاؤں پر مزید ڈیمز کی تعمیر سے روکنے کیلئے مؤثر حکمت عملی بنائی جائے، 2010ء کے فلڈ کمیشن کی رپورٹ پر عملدرآمد کرایا جائے،سندھ اور پنجاب حکومت بلدیاتی نمائندوں کو بالواسطہ اور شو آف ہینڈ کے بجائے براہ راست عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے کانظام اپنایاجائے ،جماعت اسلامی کی مجلس شوریٰ نے سیلاب ، بلدیاتی انتخابات اور نظام انتخاب کی اصلاح کے بارے قرار دادیں منظور کر لیں

جمعہ 19 ستمبر 2014 19:28

لاہور ( این اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔19ستمبر۔2014ء) جماعت اسلامی پاکستان کی مرکزی مجلس شوریٰ نے حالیہ سیلاب کی تباہ کاریوں اور بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصانات پر گہرے رنج وغم کااظہار کرتے ہوئے کہاہے کہ ہم متاثرین سیلاب کے دکھ درد میں پورے طور پر شامل ہیں، حالیہ سیلاب سے آزاد کشمیر اور پنجاب میں بڑے پیمانے پر نقصانات ہوئے ہیں اور اب سیلابی ریلا سندھ پہنچ گیاہے اور وہاں بھی خدانخواستہ جانی ومالی نقصانات کے خدشات ہیں ، اسی طرح قیامت خیز بارشوں سے صوبہ خیبر پختونخوا ، بلوچستان سمیت پورے ملک میں جانی ومالی نقصانات ہوئے اور ایک مرتبہ پھر واضح ہوگیاہے کہ ملک و قوم کو آفات و حادثات سے محفوظ رکھنے کے لیے سرے سے کوئی انتظامات نہیں۔

یہ بات مرکزی مجلس شوریٰ نے اپنے حالیہ اجلاس میں منظور کی گئی ایک قرار داد میں کہی ہے ۔

(جاری ہے)

مرکزی مجلس شوریٰ نے اپنی قرار داد میں مطالبہ کیاہے کہ بھارت کو ہمارے دریاؤں پر مزید ڈیمز کی تعمیر سے روکنے کے لیے مؤثر حکمت عملی بنائی جائے۔ بھارت کی طرف سے فلڈ وارننگ کا باقاعدہ مؤثر نظام بنوایا اور منوایا جائے۔ بھارت کی اس سیلابی تباہ کاری پر احتجاج کیا جائے اور عالمی اداروں میں بھی مؤثر انداز میں اسے اٹھایاجائے۔

2010ء کے فلڈ کمیشن کی رپورٹ پر عملدرآمد کرایا جائے۔ نیز حالیہ سیلابوں کے دوران حکومتی کوتاہیوں کے جائزہ کے لیے بھی عدالتی کمیشن قائم کیاجائے۔ سیلاب سے جن افراد کے جانی و مالی نقصانات ہوئے اور فصلوں کا اتلاف ہوا ،انہیں فی الفور مالی معاوضہ دیاجائے۔ایک دوسری قرار داد میں مرکزی مجلس شوریٰ نے مرکزاور صوبائی حکومتوں کی طرف سے بلدیاتی انتخابات کروانے کی اپنی ذمہ داریوں سے پہلو تہی کرنے کو آئینی اور عوامی مفاد سے انحراف قرار دیتے ہوئے کہاہے کہ مجلس شوریٰ کے نزدیک بلدیاتی ادارے جمہوریت کی وہ بنیادی اکائی ہیں جس پر کسی بھی ملک کا جمہوری ڈھانچہ تعمیر ہوتاہے۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کی اس بنیاد کو سیاسی حکومتیں ہی مستحکم نہیں ہونے دیتیں۔ بدقسمتی سے پاکستان میں جمہوریت سرمایہ داروں ، جاگیرداروں اور کرپشن کی کمائی سے مستفید ہونے والے زرپرستوں کے شکنجے میں پھنسی ہوئی ہے۔ اس بنیادی خرابی کے سبب موجودہ انتخابی نظام عوام کو ان کی دہلیزپر جمہوری ثمرات سے بہرہ ور کرنے میں بار بار ناکام ثابت ہو رہاہے۔

مجلس شوریٰ صوبہ خیبر پختونخوا کی حکومت سے توقع رکھتی ہے کہ وہ بہترین منصوبہ بندی کے ساتھ ٹھوس انداز میں نیا عوامی بلدیاتی نظام اور جلد از جلد شفاف انتخابات کا انعقاد یقینی بنا کر ملک بھر کے عوام کے لیے تبدیلی کی نئی اور روشن مثال قائم کرے گی۔مجلس شوریٰ مطالبہ کرتی ہے کہ سندھ اور پنجاب حکومت عدالت عالیہ کے فیصلوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے بلدیاتی نمائندوں کو بالواسطہ اور شو آف ہینڈ کے بجائے براہ راست عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے کانظام اپنایاجائے اور ووٹروں پر پینل کی پابندی ٹھونسنے کے بجائے انہیں چناؤ کے کھلے اور آزادانہ مواقع ملنے چاہیں۔

سب سے زیادہ ضرور ی یہ ہے کہ حلقہ بندیوں سے لے کر انتخابات کے انعقاد کے معاملات بیوروکریسی کے بجائے جملہ معاملات الیکشن کمیشن کے سپرد کیے جائیں اور عدالتوں کی طرف سے دی گئی مجوزہ تاریخوں میں انتخابات کو یقینی بنایاجائے۔نظام انتخاب کی اصلاح کے بارے میں منظور کی گئی قرار داد میں کہا گیاہے کہ جماعت اسلامی پاکستان کی مجلسِ شوریٰ کی یہ متفقہ رائے ہے کہ جب تک نظام انتخاب کی مکمل طور پر اصلاح کا اہتمام نہیں ہوجاتا تب تک ووٹرز مطمئن نہیں ہو سکتے۔

انتخابی عمل پرووٹرز کا اعتماد بحال ہونا ازبس ضروری ہے۔ورنہ عوامی بے چینی بڑھے گی اوراس کے اظہار کے پرامن طریقے ،پرتشدد صورت بھی اختیار کر سکتے ہیں۔2013 ء کے حالیہ عام انتخابات کے نتائج کے بعد ہر سیاسی پارٹی دھاندلی کی بجائے ”دھاندلہ“ کا رونا رو رہی ہے۔صرف جمہوری نظام کے تسلسل کی خاطر ہر پارلیمانی پارٹی نے اسمبلی میں بیٹھنے کا فیصلہ کیااور ساتھ ہی یہ مطالبہ بھی کیا کہ پہلے ان انتخابات میں ”دھاندلی“ کی تحقیقات کی جائیں پھر آئندہ کے لئے آزادانہ اورصاف وشفاف انتخابات کو یقینی بنانے کے لئے ”انتخابی اصلاحات “ کی جائیں۔

جماعت اسلامی پاکستان کی مجلسِ شوریٰ کا اجلاس، حالیہ سیاسی بحران پر اپنی گہری تشویش کا اظہار کرتا ہے اور حکومت سے پر زور مطالبہ کرتا ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کوانتظامی اور مالی لحاظ سے بااختیار بنایا جائے۔انتخابی فہرستوں کی تکمیل کے عمل کو آسان بنایا جائے۔غیر جانبداراور تجربہ کارپولنگ عملہ کی تقری کو یقینی بنایا جائے۔پریذائیڈنگ آفیسرز کو ”رزلٹ “کی تصدیق شدہ کاپی ، ہر پارٹی کے پولنگ ایجنٹ کوفراہم کرنے کا پابند کیا جائے۔

کاغذاتِ نامزدگی کی جانچ پڑتال کے وقت ،آئین کی شق نمبر ۶۲،۶۳ پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔اورسیز پاکستانیوں “ کو ووٹ کا حق دیا جائے۔انتخابی اخراجات ،طے شدہ حد کے مطابق کنٹرول کئے جائیں اور خلاف ورزی کرنے والوں کوکڑی سزا دی جائے۔الیکشن کمیشن ،انتخابی عذرداریوں کے لئے قائم کردہ”ٹربیونلز“ کے فیصلوں کے لئے معقول دورانیہ کا تعین کرے اور اس کی پابندی کو یقینی بنائے۔جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ کرتے ہوئے ”بائیومیٹرک سسٹم“ اور ”الیکٹرک ووٹنگ مشین “ کے استعمال کو رائج کیا جائے۔