اسلام آباد، ایم کیو ایم نے تحریک انصاف کی جانب سے سندھ میں نئے انتظامی یونٹس کی مخالفت کو مسترد کردیا،سندھ کے شہری عوام کو دیوار سے لگانے کی سازش ہے ،پنجاب کے پی کے اور بلوچستان میں نئے صوبے بن سکتے ہیں تو سندھ میں کیوں نہیں ، مقامی حکومتوں کا اختیار نظام اور نئے انتظامی یونٹس نہ بنائے تو ملک کا مستقبل مخدوش ہوسکتا ، فاروق ستار و دیگر ایم کیو ایم اراکین کی پریس کانفرنس

جمعہ 19 ستمبر 2014 19:02

اسلام آباد، ایم کیو ایم نے تحریک انصاف کی جانب سے سندھ میں نئے انتظامی ..

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔19ستمبر۔2014ء) ایم کیو ایم نے تحریک انصاف کی جانب سے سندھ میں نئے انتظامی یونٹس کو مسترد کردیا ، سندھ کے شہری عوام کو دیوار سے لگانے کی سازش ہے ،پنجاب کے پی کے اور بلوچستان میں نئے صوبے بن سکتے ہیں تو سندھ میں کیوں نہیں ، مقامی حکومتوں کا اختیار نظام اور نئے انتظامی یونٹس نہ بنائے تو ملک کا مستقبل مخدوش ہوسکتا ے ۔

جمعہ کو پارلیمنٹ ہاؤس کے باہرمتحدہ قومی موومنٹ ڈاکٹر فاروق ستار نے ایم کیو ایم کے دیگر ایم این ایز کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہاگر نئے صوبے نہیں بنے اور نئے انتظامی یونٹس نہیں بنائے گئے تو پاکستان کاا ستحکام خطرے سے دوچار ہو جائے گا ،اور پاکستان کی سلامتی خطرے سے دوچار ہو جائے گی،پاکستان جو جس چیز سے سب سے زیادہ خطرہ لاحق ہے وہ انتظامی دھانچہ میں اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی میں درپیش رکاوٹیں ہیں، سند ھ کے عوام بلخصوص شہری علاقوں کے عوام کو دیوار سے لگانے کی کوشیش کی جا رہی ہے جو کہ ملک کے لئے خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔

(جاری ہے)

ڈاکٹر فاروق ستار کا کہنا تھا کہ متحدہ قومی مومنٹ نے سند کی تقسیم کا مطالبہ لسانی بنیادون پر نہیں کیا تھا بلکہ یہ مطالبہ سند ھ کی انتظامی بنیادوں پر تقسیم کا تھا۔ انہوں نے کہا کہ آج ملک کے کونے کونے سے نئے صوبوں اور نئے انتظامی یونٹس کے قیام کی حمایت میں آوازیں اٹھ رہی ہیں جو کہ نقارہ خدا ہیں۔ایم کیو ایم کے راہنما ء کا کہنا تھا کہ ملک میں جاری موجودہ سیاسی بحران کی بڑی وجہ اختیارات کا غلط استعمال ہے بلدیاتی حکومتوں کا نہ ہونا ہے ، اگر دھرنوں سے آئندہ بچنا ہے تو پاکستانی عوام کو ان کا حق دینا ہو گا،پاکستان کے تمام موجودہ صوبوں میں نئے صوبے بنانا ہوں گے وگرنہ جمہوریت کی گاڑی کو آگے لے کر جانا انتہائی مشکل ہو گا۔

ایک وال کے جواب میں ڈاکٹر فاروق ستار نے واضح کیا کہ ملک میں نئے صوبوں کا قیام ضروری ہے پنجاب، کے پی کے، بلوچستان اور سندھ میں نئے صوبے لسانی نہیں انتظامی بنیادوں پر بنائے جائیں ، نواز شریف سے کہا ہے کہ نئے صوبے اور انتظامی یونٹس بنانے پر اپنی توجہ مرکوز کریں، ہم تمام نئے صوبوں کے قیام کے حق میں ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ایم کیو ایم پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے سندھ میں نئے انتظامی یونٹس کے قیام کو مسترد کرنے کی شدید مذمت کرتی ہے،دھرنوں میں ڈاکٹر طاہر القادری، سمیت پی ٹی آئی کے عارف علوی اور نادرلغاری نے پنجاب، خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں نئے صوبوں کے قیام کی حمایت کی تھی تاہم اب پی ٹی آئی کی جانب سے سندھ میں اس کی مخالفت کر دی گئی ہے،پی ٹی آئیکی جانب سے سندھ کے عوام کو دیوار سے لگانے کی کوشیش کی گئی ہے جس سے پاکستان تحریک انصاف کی عوام دشمنی سامنے آ گئی ہے، یہ سندھ کے عوام کو غلام بنائے رکھنے کی سازش ہے، پی ٹی آئی کو تمام پاکستان کی آزادی گوارا ہے تاہم سند ھ کے عوام کوآزادی دینا گوارا نہیں ہے ۔

ڈاکٹر فاروق ستار نے سوال کیا کہ پنجاب میں نئے صوبے کا مطالبہ کرنے والے سندھ کے شہری عوام سے دشمنی کیوں کررہے ہیں ہم نے سندھ کی تقسیم لسانی بنیادوں پر کرنے کا مطالبہ نہیں کیا سرائیکی جنوبی پنجاب بہاولپور مالاکنڈ ہزارہ نئے انتظامی یونٹس بننے چاہئیں سکھر حیدر آباد اور کراچی پر مشتمل شہری آبادی کو بھی حق ملنا چاہیے مشرف دور میں مقامی حکومتوں نے نمایاں کارکردگی دکھائی ہے اور اختیارات کو نچلی سظح تک منتقل کیا ہے۔

متحدہ قومی موومنٹ کے راہنما ء نے کہا کہ سند ھ پاکستان کی قومی آمدن میں ۷۰ فیصد سے زیادہ اور صوبائی آمدن میں ۹۵ فیصد سے زائد یونیو فراہم کر رہا ہے تاہم صوبائی سطھ پر ۵ فیصد بھی واپس سندھ کو نہیں لوٹایا جا رہا،سند ھ کی صوبائی حکومت اپنے ریونیو میں ۵ فیصد اور باقی اپنے اپنے اللے تللوں کے لئے انتظامی سطح پر نئے یونٹس کے قیام کی مخالفت کر رہے ہیں، کراچی پاکستان کی معیثت کی ریڑھ کی ہڈی ہے اگر اس کو فنڈ فراہم کئے جائیں اور اس کو خوشحال بنایا جائے تو اس کا اثر تمام ملک پر مرے گا اور ملک خوشحال ہو گا تاہم اس کے لئے انتظامی ڈھانچہ میں تبدیلیاں ضروری ہیں، ایک اور سوال کے جواب میں ایم کیو ایم کے رہنما ء نے مطلع کیا کہ ایم کیو ایم نے پالرلیمان میں منظور ہونے والی مشترکہ قرارداد پر دستخط نہیں کئے اورقرارداد کی منظوری کے وقت وہ نئے صوبوں اور انتظامی یونٹس کی مخالفت پر واک آوٹ پر تھے اور ایم کیو ایم کے اراکین ایوان میں موجود نہیں تھیلہذا اس موضوع پر متحدہ قومی موومنٹ کی غیر حاضری تصور کی جائے۔