عدالت کا پولیس کے زیر استعمال تعلیمی اداروں کو خالی کرانے کا حکم

جمعہ 19 ستمبر 2014 17:34

عدالت کا پولیس کے زیر استعمال تعلیمی اداروں کو خالی کرانے کا حکم

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔19ستمبر 2014ء) دفعہ 144 کے نفاذ کے خلاف تحریک انصاف کی درخواست کی سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس اطہر من اللہ نے کی۔ دوران سماعت جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ جب دھرنے کی اجازت دی تو پھر دفعہ 144 کیوں لگائی؟ ڈپٹی کمشنر مجاہد شیر دل نے عدالت کو بتایا کہ انہوں نے بطور ڈی سی دھرنے کی اجازت نہیں دی۔

جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے باہر سی سی ٹی وی کیمرے توڑے گئے، کوئی تو ذمے دار ہوگا۔ تحریک انصاف بیان حلفی دے کہ دھرنے میں کوئی شرپسند شامل نہیں ہوگا۔ موجودہ صورتحال سے دنیا میں پاکستان کو شرمندگی کا سامنا ہے، بگڑتی صورتحال سے تاثر مل رہا ہے کہ گورننس کے مسائل ہیں۔ ڈپٹی کمشنر اسلام آباد نے بتایا کہ 63 میں سے 16 اسکولوں میں اب بھی پولیس اہلکار مقیم ہیں۔

(جاری ہے)

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دئیے کہ بچوں کا تعلیمی سال ضائع نہیں ہونا چاہئے۔ منگل تک اسلام آباد کے تمام بند اسکول کھول دیئے جائیں۔ رکاوٹ ڈالنے والوں کی نشاندہی کریں کارروائی کریں گے۔ عدالت نے تحریک انصاف کے رہنما اسد عمر اور ڈپٹی کمشنر کو مل بیٹھ کر مشترکہ پلان بنانے کا حکم دیا اور قرار دیا کہ ایسا پلان بنایا جائے جس میں کوئی قانون سے تجاوز نہ کرے۔

پلان بناتے وقت بنیادی حقوق کا بھی خیال رکھا جائے۔ عدالت نے ہدایت کی کہ کہ آئی جی اسلام آباد بھی ڈی سی کے پلان کے مطابق چلیں اور خود سے کوئی بھی کارروائی کرنے سے گریز کریں۔ سماعت کے بعد میڈیا سے گفتگو میں شاہ محمود قریشی نے کہا کہ حکومت کا رویہ تبدیل ہونے تک مذاکرات معطل رہیں گے۔ اس موقع پر اسد عمر کا کہنا تھا کہ عدالت نے واضح احکامات جاری کیے ہیں 3 ہزار لوگوں پر نظر رکھنے کیلئے 40 ہزار پولیس اہلکاروں کی کیا ضروت ہے؟۔

متعلقہ عنوان :