بھارت کی جانب سے اضافی پانی چھوڑنا پاکستان کو ڈبونے کی سازش ہے ‘ سیاسی اور مذہبی رہنماؤں کی گفتگو

جمعہ 19 ستمبر 2014 12:34

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔19ستمبر۔2014ء) سیاسی اور مذہبی رہنماؤں اور ماہرین نے پانی چھوڑنے جانے کو پاکستان کو ڈبونے کی بھارت سازش قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہم حالت جنگ میں ہیں ‘ بھارت کی آبی جارحیت کو اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل تک لے کر جانا چاہئے۔ ایک انٹرویو میں جماعت الدعوة کے سربراہ حافظ سعید نے کہاکہ بھارت پانی کو پاکستان پر حملے کیلئے استعمال کررہا ہے، ہم حالت جنگ میں ہے، بھارت کی آبی جارحیت کو اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل تک لے کر جانا چاہئے۔

جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے کہاکہ بھارت پر دریائے چناب میں سیلاب کی شدت بڑھانے کا الزام لگانے کے موقع سے فائدہ اٹھانا نہیں بھولے۔پاکستان کے سابق انڈس واٹر کمشنر جماعت علی شاہ نے کہاکہ موجودہ سیلاب کوہ ہمالیہ کے خطے میں دریائے چناب کے طاس میں شدید بارشوں کے نتیجے میں آیا،بھارت کے پاس اس دریا پر پانی ذخیرہ کرنے کا کوئی اہم ڈیم نہیں کیونکہ پاکستان کے ساتھ سندھ طاس معاہدے کے تحت اور چناب پر کام کرنے والے ہائیڈرو پاور منصوبوں جیسے بگلہیار کے ذریعے وہ اپنے خطے سے پاکستان میں جانے والے سیلاب کو زیادہ بڑھا نہیں سکتا۔

(جاری ہے)

جماعت علی شاہ نے کہاکہ جہلم دریا کے پانی کا صرف بیس فیصد حصہ بھارت رت سے آتا ہے، باقی بہاؤ آزاد کشمیر سے اس کا حصہ بنتا ہے۔انہوں نے کہاکہ بھارت غیرجانبدار انتظامیہ کے زیرتحت ٹیلی میٹری نظام کی تنصیب کیلیے تیار نہیں ہوا جو دونوں ممالک کو درست دریائی ڈیٹا سے سیٹلائٹ تصاویر کے ذریعے آگاہ رکھ سکتا ہے جس سے بروقت اقدامات میں مدد ملتی اس طرح کی صورتحال میں ہمیں سیلاب کی درست پیشگوئی کی اپنی صلاحیت کو بڑھانا ہوگا تاکہ نقصانات کو محدود اور زندگیوں کو بچایا جاسکے۔

جماعت علی شاہ کے مطابق سیلاب پاکستان میں سب سے تباہ کن قدرتی آفت پے 2010 کا سیلاب نے پاکستان کے عوام اور معیشت کو بہت زیادہ متاثر کیا مگر بدقسمتی سے حکومت تاحال فلڈ منیجمنٹ پلاننگ کو بنانے میں ناکام رہی ہے۔محکمہ آبپاشی پنجاب کے ایک ریٹائر عہدیدار اور محقق چوہدری مظہر علی نے کہا کہ ہمیں ایسے منظم ادارے کی ضرورت ہے جو سیلاب کے اسباب اور اس کے اثرات پر تحقیق کروانے کا ذمہ دار ہو اس کے ساتھ ساتھ ہمیں زندگیوں کے نقصان اور اقتصادی نقصانات کو کم سے کم کرنے کیلئے بھی اقدامات کی ضرورت ہیں۔

انہوں نے کہاکہ بھارت پر الزام تراشی ی بجائے ہمیں اس بات کو تسلیم کرنا چاہئے کہ ہم سیلاب سے نمٹنے کیلئے تیار نہیں کیا کوئی مجھے بتاسکتا ہے کہ ہم نے 2010 کے سیلاب کے بعد سیلابی شدت میں کمی لانے کیلئے کیا اقدامات کیے ہیں؟ کچھ بھی نہیں ‘جب ایمرجنسی سامنے آتی ہے تو ہم بغیر منصوبہ بندی کے اقدامات شروع کردیتے ہیں کیونکہ ہم اس کے لیے تیار ہی نہیں ہوتے ‘جب سیلاب گزر جاتا ہے تو ہم پھر سوجاتے ہیں اور جب تک اگلا بحران جھنجھوڑ کر اٹھاتا ہے تو وہی افراتفری میں اقدامات کی مشق شروع ہوجاتی ہے۔

جماعت علی شاہ نے کہا کہ اگر ہم سیلاب سے ہونے والے نقصانات کو محدود کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی مکمل فلڈ مینجمنٹ منصوبہ بندی اور پالیسی پر نظرثانی کرنا ہوگی ‘یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے اقدامات سے سیلاب کے تباہ کن اثرات کو کم کرے۔فلڈ مینجمنٹ کے تعمیراتی اقدامات میں فلڈ کنٹرول انفراسٹرکچر جیسے پشتوں اور بندوں کو مضبوط بنانا، سیلابی پانی کا رخ بدلنے کیلئے چینلز اور ذخیرہ کرنے کے مقامات اور بیراجوں کی صلاحیت بڑھانا شامل ہے، غیر تعمیراتی اقدامات سیلاب کی پیشگوئی اور انتباہ کی صلاحیت بڑھانے پر مشتمل ہے۔

محکمہ موسمیات کے ایک سنیئر عہدیدار نے بتایا کہ حالیہ برسوں میں سیلاب کی شدت میں اضافہ ہوا ہے اور مستقبل میں اس میں مون سون زون کی تبدیلی کے باعث مزید شدت کا خدشہ ہے، آپ سیلاب کو کنٹرول تو نہیں کرسکتے مگر آپ جانی و مالی نقصانات کو بہتر تیاریوں کی مدد سے ضرور کنٹرول کرسکتے ہیں، آخر ہم کب تک اپنے لوگوں کو ڈوبتے دیکھتے رہیں گے؟۔

متعلقہ عنوان :