2013ء کے انتخابات کی شفافیت ہمیشہ زیر بحث رہی ہے‘ جماعت اسلامی پاکستان

جمعرات 18 ستمبر 2014 22:12

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔18ستمبر 2014ء) جماعت اسلامی پاکستان نے کہا ہے کہ موجودہ حکومت عوامی مسائل کو حل کرنے میں مکمل ناکام رہی ہے‘ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے معیشت کی بحالی کی بجائے آئی ایم ایف سے قرضہ لینے، بالواسطہ ٹیکس بڑھانے اور نوٹ چھاپ کر حکومت چلانے کی جو پالیسی اختیار کررکھی ہے اس کے نتیجہ میں مہنگائی میں بے پناہ اضافہ اور روپے کی قدرمیں کمی ہوئی ہے‘ اس وقت ملک پر بدترین مہنگائی مسلط ہے‘ اشیائے صرف کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہو رہاہے‘عوام کو مہنگائی کی کند چھری سے ذبح کرنے اور قوم کو زندہ درگور کرنے کے عمل میں کوئی کمی نہیں ہوئی‘جماعت اسلامی کی مرکزی مجلس شوری کے اجلاس میں منظور کی جانے والی قراردادمیں کہا گیا ہے کہ مرکزی مجلس شوریٰ جماعت اسلامی پاکستان عالمی سازشوں کے تناظر میں آئین پاکستان کے خلاف کسی بھی غیر آئینی مہم جوئی کے امکانات کو نظر انداز نہیں کرسکتی، اس لیے جماعت اسلامی واضح کرناانتہائی ضروری سمجھتی ہے کہ آئین پاکستان کے خلاف کسی بھی سازش کو کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا۔

(جاری ہے)

سیاسی معاملات کو سیاسی دائرہ میں ہی نتیجہ خیز حل تک پہنچایا جائے ۔جماعت اسلامی پاکستان اپنی اس پالیسی کا ایک مرتبہ پھر اعادہ کرتی ہے کہ وہ فریق بننے کی بجائے اپنے ثالثی کردار کو جاری رکھے گی اور فریقین کے درمیان مفاہمت کی فضا کے لیے جدوجہد کرتی رہے گی۔ جماعت اسلامی حکومت، پی ٹی آئی اور پاکستان عوامی تحریک کے رہنماؤں سے اپیل کرتی ہے کہ وہ سیاسی معاملات کو بندگلی سے نکالنے کے لیے مفاہمتی ایثاراور بصیرت کا مزید ثبوت دیں‘قرار داد میں ملک کے موجودہ سیاسی حالات اور قومی سلامتی و سالمیت کو درپیش خطرات پر گہری تشویش کا اظہار کر تے ہوئے کہا گیاہے کہ ملک اس وقت اپنی تاریخ کے بدترین سیاسی بحران سے گزر رہاہے اور اس سیاسی بحران کو ختم کرنے ، سیاسی معاملات وتنازعات کو سیاسی انداز میں حل کرنے اور متحارب سیاسی قوتوں کو قریب لانے کے لیے سراج الحق ، امیرجماعت اسلامی پاکستان کی سربراہی میں ہونے والی تمام مذاکراتی کاوشوں کے باوجو د ڈیڈلاک کی کیفیت مسلسل جاری ہے اور ملک پر ایک مرتبہ پھر بے یقینی کے بادل منڈلارہے ہیں۔

جماعت اسلامی پاکستان کی مرکزی مجلس شوریٰ کا اجلاس یہ سمجھتاہے کہ موجودہ حکومت عوامی مسائل کو حل کرنے میں مکمل ناکام رہی ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے معیشت کی بحالی کی بجائے آئی ایم ایف سے قرضہ لینے، بالواسطہ ٹیکس بڑھانے اور نوٹ چھاپ کر حکومت چلانے کی جو پالیسی اختیار کررکھی ہے اس کے نتیجہ میں مہنگائی میں بے پناہ اضافہ اور روپے کی قدرمیں کمی ہوئی ہے۔

اس وقت ملک پر بدترین مہنگائی مسلط ہے۔ اشیائے صرف کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہو رہاہے۔ عوام کو مہنگائی کی کند چھری سے ذبح کرنے اور قوم کو زندہ درگور کرنے کے عمل میں کوئی کمی نہیں ہوئی ۔لیاقت بلوچ ، سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی پاکستان کے خط پر سپریم کورٹ کے از خود نوٹس اور ہدایات کے باوجود آٹے کی قیمتوں میں کوئی کمی نہیں ہوئی۔ معیشت کو مستحکم کرنے ،بھارت سے دریائی پانیوں کے مسئلے کو حل کرنے اور زراعت کے استحکام کے لیے کھاد، بیج ،زرعی ادویات ، بجلی او ر ڈیزل پر ڈیوٹیوں اور ٹیکسز میں کمی کرکے زرعی مداخل سستے کرنے کی بجائے اپنے ملک کو بھارت کے لیے ایک منڈی بنانے کی پالیسی اپنا رکھی ہے۔

480ارب روپے کے گردشی قرضے کی یکمشت ادائیگی کے باوجود بجلی کی لوڈ شیڈنگ میں کوئی کمی نہیں ہوئی۔ جبکہ محض چودہ ماہ کی مدت میں گردشی قرضہ ایک مرتبہ پھر تین سو ارب روپے تک پہنچ رہاہے۔جماعت اسلامی افواج پاکستان کے سربراہ اور بعد میں آئی ایس پی آر کے ترجمان کی طرف سے فوج کے غیر سیاسی کردار کی یقین دہانیوں کی تحسین کرتی ہے اور ایک مرتبہ پھر یہ واضح کرنا ضروری سمجھتی ہے کہ ماضی میں بعض جرنیلوں کی طرف سے ہونے والی غیر آئینی شب خون اور 33سالوں پر مشتمل فوجی حکومتوں کے اقدامات کی وجہ سے ہمارے بڑے بڑے قومی سانحات و قوع پذیر ہوئے ہیں اور اس سے ملک و قوم ہی نہیں خود افواج پاکستان کے عسکری کردار کو ناقابل تلافی نقصان پہنچاہے۔

اسی طرح آئین پاکستان پاکستان کی نظریاتی وجغرافیائی حدود کا محافظ اور وفاق پاکستان کے استحکام کاضامن ہے۔ اس آئین کے پیچھے قرار داد مقاصد ،31علمائے کرام کے 22نکات ،مطالبہ دستور اسلامی مہم ، 1973ء کے آئین کے اسلامی اور وفاقی پہلوؤں پر علمائے کرام اور دیگر سیاسی زعماء کی کاوشوں کی ایک پوری تاریخ ہے۔ سرعام ناچ گانے کی محفلیں سجانے اورمغربی تہذیب کے غلبے کی تمام کوششوں کو ناکام بنا کر پاکستانی مغاشرے میں اسلامی اقدار کی حفاظت بھی دستور پاکستان اور ہمارے دین وایمان کا حصہ ہے۔

اس کا اہتمام لازمی ہے۔ یہ آئین پاکستان کو اسلامی جمہوریہ اسلام کو پاکستان کا سرکاری مذہب، قرار داد مقاصد کو آئین کا بنیادی حصہ ، قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت ، قرآن وسنت کے منافی قانون سازی پر پابندی ، اسلامی نظریاتی کونسل اور وفاقی شرعی عدالت کے قیام ،نیز آرٹیکل 62-63کے ذریعہ اراکین پارلیمنٹ کی تطہیر کانظام اور آرٹیکل 31کے تحت ایک اسلامی معاشرے کے قیام کو حکومتی ذمہ داری قرار دینے جیسے اہم پہلو موجود ہیں ۔

یہ آئین پاکستان وفاق کی اکائیوں کو متحد رکھنے کی اہم دستاویز ہے۔جماعت اسلامی پاکستان کی مرکزی مجلس شوریٰ کا یہ اجلاس اس دوران میڈیا بالخصوص کارکن صحافیوں کے خلاف ہونے والی تمام تر متشددانہ کاروائیوں کی بھرپور مذمت کرتااور اسے آزادی صحافت پر حملہ قرار دیتاہے ۔ تشدد کے یہ واقعات چاہے پولیس اور حکومتی اداروں کی طرف سے ہوئے ہیں یا کسی سیاسی جماعت کے ورکرز کی طرف سے یہ قابل مذمت ہی نہیں قابل گرفت بھی ہیں۔

پی ٹی وی پر حملہ ، عمارت پر قبضہ ،نجی ٹی وی کے دفاتر پر پتھر اؤ اورحملے متعدد ٹی و ی چینلز کی گاڑیوں اور کیمرہ مینوں پر حملے ملک میں تشدد،عدم برداشت اور فسطائیت پر مبنی رویوں کی عکاسی کرتے ہیں اور لازمی ہے کہ حکومت ہو یا سیاسی زعما ء ان واقعات کے سدباب کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھائیں۔مرکزی مجلس شوریٰ اس تمام سیاسی بحران کے دوران فریق بننے کی بجائے ثالث بننے اور ملک و قوم کو کسی بھی سیاسی حادثے سے بچانے کی پالیسی کا ایک مرتبہ پھر اعادہ کرتی ہے ۔

اپوزیشن جماعتوں کے سیاسی جرگہ نے فریقین کے درمیان فاصلوں کو کم کرنے اور انہیں تناؤ، کھچاؤ اور ٹکراؤ سے بچانے کے لیے پارلیمانی جرگہ کے سربراہ کے طور پر پورے صبر وتحمل اور فہم و فراست کے ساتھ جو جدوجہد کی ہے، اس پرسیاسی جرگہ کی ٹیم کی تحسین کرتی ہے اور جماعت اسلامی پاکستان کے مصالحتی کردار کی جس طرح پاکستانی قوم ،میڈیا، سیاسی زعماء اور اہل فکر و نظر نے تحسین و پذیرائی کی ہے، اس پر ہم اللہ کاشکر ادا کرتے ہیں۔

جماعت اسلامی پاکستان نے نہ صرف یہ کہ دھرنوں کے اکثر مطالبات کی تائید و حمایت کی ہے بلکہ انہیں اپنے مطالبات اور مذاکراتی عمل کے ذریعہ ان مطالبات کو منوانے کو اپنا ہدف قرار دیا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ 2013ء کے انتخابات کی شفافیت ہمیشہ زیر بحث رہی ہے۔ جماعت اسلامی نے خود کراچی میں انتخابی دھاندلی کے خلاف انتخابات کابائیکاٹ کیا۔اسی طرح ہم نے فاٹا سمیت ملک کے متعدد مقامات پر انتخابی دھاندلیوں پر صدائے احتجاج بلند کی ہے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ 2013ء کے انتخابات پرچاروں صوبوں میں پیداہونے والے اعتراضات کے حوالے سے ان تحفظات کامداوا ضروری ہے۔ جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ کے نتیجہ میں اگر ایسی دھاندلی ثابت ہوجائے جس کا فائدہ موجودہ حکومت کو پہنچاہے، تو نہ صرف وزیراعظم استعفیٰ دیں گے بلکہ تمام اسمبلیاں توڑ کر نئے انتخابات کروائے جائیں گے، اور پوری پارلیمنٹ اس پر ضامن بنے گی۔ جماعت اسلامی الیکشن کمیشن کی تشکیل نو کے مطالبہ کو بھی بالکل جائز اور بر وقت سمجھتی ہے، اور اس کی تشکیل میں تمام سیاسی حلقوں کی وسیع تر حقیقی اور مؤثر مشاورت کو لازمی قرار دیتی ہے۔

متعلقہ عنوان :