پاکستان عوامی تحریک کے احتجاجی دھرنے میں متعدد حاملہ خواتین کی موجودگی کا انکشاف،صحت کی بنیادی سہولیات میسر نہیں جس کے باعث ان کے کیس پیچیدہ ہونے کے خدشات ،دھرنے میں قائم میڈیکل کیمپ میں بھی سہولیات میسر نہیں،مقامی ہسپتال بھی انہیں صحت کی سہولیات دینے سے انکاری،متاثرین فٹ بال بن کر رہ گئے

منگل 16 ستمبر 2014 19:35

پاکستان عوامی تحریک کے احتجاجی دھرنے میں متعدد حاملہ خواتین کی موجودگی ..

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔16ستمبر 2014ء) پاکستان عوامی تحریک کے احتجاجی دھرنے میں متعدد حاملہ خواتین کی موجودگی کا بھی انکشاف ہوا ہے جنہیں صحت کی بنیادی سہولیات میسر نہیں جس کے باعث ان کے کیسوں کے پیچیدہ ہونے کے خدشات پیدا ہو گئے ہیں۔ان حاملہ خواتین کو احتجاجی دھرنے میں قائم میڈیکل کیمپ میں بھی سہولیات میسر نہیں جبکہ مقامی ہسپتال بھی انہیں صحت کی سہولیات دینے سے انکاری ہیں۔

اطلاعات کے مطابق دھرنے میں موجود ملتان کی رہائشی ساجدہ وقار علاج کیلئے پمز کے کئی چکر لگا چکی ہے لیکن مکمل علاج ابھی تک نہ ہوسکاجس سے اس کا کیس پیچیدہ ہونے کا خطرہ ہے۔ ساجدہ وقار کے شوہر وقار انصاری نے میڈیا کو بتایا کہ اس کی بیوی حاملہ ہے اور دھرنے میں قائم میڈیکل کیمپ میں حاملہ خواتین کیلئے کوئی سہولیات میسر نہیں اس ضمن میں وہ علاج کی غرض سے کئی بار پمز کے چکر لگا چکے ہیں لیکن وہاں کوئی بھی مستقل علاج کی سہولت نہیں دی جارہی۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ اس کی بیوی امید سے ہونے کی وجہ سے بلڈ پریشر کی کمی کا شکار ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اچھی خوراک نہ ہونے کی وجہ سے بھی کمزوری محسوس ہوتی ہے‘ ڈاکٹرز کے مشورے کے مطابق ساجدہ وقار کو مکمل آرام اور اچھی خوراک کی ضرورت ہے وقار انصاری نے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت اس کی بیوی کے علاج کی سہولت فراہم کرے جو ان کا بنیادی حق ہے۔ پی اے ٹی کے میڈیکل کیمپ کے انچارج علی رضا بابر نے میڈیا کو بتایا کہ میڈیکل کیمپ میں حاملہ خواتین کیلئے انجکشن فولک ایسڈ میسر نہیں ہے اور نہ ہی حاملہ خواتین کیلئے کوئی ادوایات جس کی وجہ سے حاملہ خواتین کو سرکاری ہسپتالوں میں جانا پڑ رہا ہے ۔

حکومت اور وزارت صحت اور اس سلسلے میں کسی بھی میڈیکل کیمپ میں ادویات فراہم کرنے کا کوئی عندیہ نہیں دیا۔ انہوں نے ملک کی بڑی رفاہی تنظیموں این جی اوز سے مطالبہ کیا ہے کہ حاملہ خواتین کیلئے دھرنا میں لگائے گئے میڈیکل کیمپ میں ادویات فراہم کی جائیں تاکہ حاملہ خواتین کی زندگی کو کوئی خطرہ نہ ہو۔