وفاقی، اسلام آباد و ملک بھر کے ایوان ہائے صنعت و تجارت کی شعبان خالد کے خلاف پولیس گردی اور مبینہ تشدد کی بھرپور مذمت، 3روز میں ذمہ دار پولیس اہلکاروں کے خلاف کاروائی نہ ہونے پر اسلام آباد میں آئندہ حکمت عملی کا اعلان کرنے کا فیصلہ

منگل 16 ستمبر 2014 19:35

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔16ستمبر 2014ء ) ایوان ہائے صنعت و تجارت اسلام آباد، وفاقی ایوان ہائے صنعت و تجارت اور ملک بھر کے دیگر ایوان ہائے صنعت و تجارت کے صدور اور دیگر عہدئداران نے پولیس کے جانب سے مسلسل تاجر برادری کو ہراساں کئے جانے، تاجروں کی بلاجواز گرفتاریوں اور بلخصوص 13ستمبر کے روز ایوان ہائے صنعت و تجارت اسلام آباد صدرشعبان خالد کے خلاف پولیس گردی اور ان پر پولیس کے مبینہ تشدد کی بھرپور مزمت کرتے ہوئے کہا انتباہ کیا ہے کہ اگر تین روز کے دورانشعبان خالد کے خلاف مبینہ پولیس گردی کے زمہ دار پولیس اہلکاروں کے خلاف کاروائی نہ کی گئی تو ملک بھر کے ایوان ہائے صنعت و تجارت اسلام آباد میں جمع ہو کر اپنی آئندہ کی حکمت عملی کا اعلان کریں گے، اس دوران آئی جی پولیس اسلام آباد طاہر عالم خان نے پولیس کی جانب سے ایوان سے معزرت کی۔

(جاری ہے)

منگل کے روز ایوان ہائے صنعت و تجارت اسلام آباد، وفاقی ایوان ہائے صنعت و تجارت اور ملک بھر کے ایوان ہائے صنعت و تجارت کے صدور کی جانب سے ایوان ہائے صنعت و تجارت اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ایوان ہائے صنعت و تجارت اسلام آباد کے صدر شعبان خالد نے 13 ستمبر کو اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعہ کی تفصیلات سے میڈیا کو آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ کہ 13ستمبر کے روز جب وہ دھرنوں سے 5 کلومیٹر دورجب اپنے گھر سے اپنے دفتر واقع ایف ایٹ سیکٹر روانہ ہوئے تو مارگلہ چڑیا گھر کے نزدیک پولیس ( زیادہ تر پنجاب پولیس کے اہلکار)جو کہ اس موقع پر عام عوام، وہاں سے گزرنے والوں، پی ٹی آئی اور پی اے ٹی کے کارکنان کی گرفتاریوں میں مصروف تھی نے نہ صرف شعبان خالد کو روکا بلکہ ان کوکالر سے گھسیٹ کر ان کی گاڑی سے باہر نکال کر نکال، بدتمیزی کی ا اور ان کی جانب سے بار بار تعارف کروانے کے باوجود ان کی نہ صرف ان پر مبینہ تشدد کیا بلکہ ان کی گاڑی کے شیشے بھی توڑ دیئے ۔

انہون نے کہا کہ اس موقع پر اسلام آباد پولیس کے اہلکاروں کا رویہ بہتر تھا اور انہوں نے پنجاب پولیس کے اہلکاروں کوان کی شناخت کے حوالے سے بھی متنبہ کیا تاہم پنجاب پولیس نے ان کو شدید پولیس گردی کا نشانہ بنایا، حتی کہ ان سے ان کا موبائل فون بھی چھین لیا جو کہ بعد ازاں لوٹایا گیا اور واقعہ کے تین روز بعد تک باوجود رابطہ کرنے کہ پولیس کے کسی اعلی افسر نے ان کی داد رسی یا اس حوالے سے کاروائی کرنے کی کوئی یفین دھانی کروائی نہ ہیاس پر معزرت کی۔

شعبان خالد نے کہا کہ پولیس کو پولیس سروس بنانے کہ ضرورت ہے نہ کہ پولیس فورس بنانے کی اور اگر وہ ان کے ساتھ یہ سلوک کر سکتی ہے تو پھر عام عوام کے ساتھ پولیس کی غنڈہ گردی کا تو اللہ ہی حافظ ہے،اور گذشتہ چند دن کے ملک بھر میں تاجر برادری و بزنس مین حضرات پولیس کی جانب سے شدید مسائل کا شکار ہیں جن میں ہراساں کئے جانے، تشدد اور غیر قانونی گرفتاریان عام ہیں، انہون نے اس موقع پر سلائڈ تصاویر میں چند ذمہ دار پولیس اہلکارون کی تصاویر بھی دکھائیں۔

اس موقع پر وفاقی ایوان ہائے صنعت و تجارت کے صدر منور مغل کا کہنا تھا کہ شعبان خالد پر مبینہ تشدد، بدتمیزی اور پولیس گردی پر ملک بھر کے ایوان ہائے صنعت و تجارت کے صدور اور عہدیداران مین شدید بے چینی، اضطراب اور غم و غصہ کی کیفیت پائی جاتی ہیاور انہوں نے اسلام آباد و وفاقی ایوان ہائے صنعت و تجارت سے درخواست کی ہے کہ اس واقعہ پر آئندہ کے لائحہ عمل اور حکمت عملی کا اعلان کیا جائے۔

منور مغل نے مزید کہا کہ اگر تین روز کے دوران اس واقع میں ملوث پولیس اہلکاروں کے خلاف کاروائی نہ ہوئی تو ملک بھر کی تاجر برادری یہان اسلام آبد میں جمع ہو کر اس حوالے سے اپنی مستقبل کی حکمت عملی اور موجودہ لائحہ عمل کا اعلان کرے گی۔صدر آل پاکستان انجمن تاجران اجمل بلوچ نے کہا کہ مارکیٹوں، بازاروں اور دوکانوں کا دورہ کرنے والے کسی بھی شخص کو پولیس بلاجواز نہ صرف تشدد کا نشانہ بناتی ہے بلکہ اس کو گرفتار بھی کر لیا جاتا ہے جس کے باعث کاربار تباہ ہو کر رہ گیا ہے،پہلے دھرنوں نے تاجر برادری کے کاروبار کو تباہ کیا اور اب حکومت اور پولیس اس سے بڑھ کر کارباری و تجارتی سر گرمیون کو برباد کر رہی ہے، اگر یہ سلسلہ جاری رہتا ہے تو تاجر اور کارباری برادری کو مجبورا سڑکوں پر آ کر احتجاج کا راستہ اختیار کرنا پڑے گا۔

اجمل بلوچ نے کہا کہ ان کی آنکھوں کے سامنے درجنوں بے گناہ تاجروں اور دوکاندارون کو بغیر کسی وجہ کے گرفتار کیا گیا جن میں سے 30-40 کو انہون نے خود ضمانتیں کر کہ رہا کروایا،اور اس بات پر وہ عدالتی حلف نامہ جمع کروا سکتے ہیں کہ وہ دھرنے کے شرکاء نہیں بلکہپر امن تاجر تھے جو دن بھر محنت کے بعدرات کو گھر واپس جا رہے تھے حتی کہ پیر کی شب گھر واپس جاتے ہوئے ان کو بھی پولیس نے گاڑی پر ڈندے مار کہ نہ صرف روکا بلکہ پراساں کیا ۔

اس موقع پر اسلام آباد کے آئی جی پولیس طاہر عالم خان نے جو کہ پریس کانفرنس کے دوران وہاں پہنچ گئے تھے نے واقعہ پر پویس کی جانب سے معذرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے سلطان اعظم تیموری کو اس واقعہ کی خسوصی انکوائری کرنیکی ہدایات دے دیں ہیں، اس دوران وہ میڈیا پر پولیس کے تشدد کے حوالے سے ابھی تک ایف آئی آر درج نہہونے پر پہلے تو صحافیوں کے سولات کو ٹالتے رہے تاہم بعد ازاں انہون نے کہا کہ تیمیوری صحافیون پر تشدد کے واقعہ کی بھی انکوائری کریں گے اور تشدد کرنے والوں کو شناخت کریں گے۔

انہوں نے دھمکی آمیز لہجے میں کہا کہ وہ ایک خان ہیں اور اصلی خان ہیں اور قانون پر عملدرآمد کے لئے بلوائے گئے ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں نظر آتا ہے کہ بعض تاجر بھی اس چیز کا احساس نہیں کر رہے کہ اسلام آباد کے ساتھ ہو کیا رہا ہے وہ غیر جانبدار نہیں ہیں اور ان کو اس فورم پر غیر جانبدار رہنا چاہئے، آئی جی پولیس نیایوان ہائے صنعت و تجارت کی پریس کانرنس کے دوران پی ٹی آئی کو بھی دھمکی آمیز لہجے میں کہا کہ اگر مظاہرین غلیلیں استعمال کریں گے تو پولیس بھی ڈنڈے استعمال کرے گی، قانون ہاتھ میں لینے والوں کے کلاف ضرور کاروائی ہو گی دارلحکومت کو دھرنوں کی بھرپور قیمت چکانا پڑ رہی ہے جرائم اور کار چوری کے واقعات میں اضافہ ہو گیا ہے اگر صدر آل پاکستان انجمن تاجران اجمل بلوچ 30 بے گناہ گرفتار شدہ تاجروں کے نام بتا دیں تو وہ اپنا چارج چھوڑ دیں گے۔

ایک سوال کے جواب میں طاہر عالم نے کہا کہ پولیس کے اخراجات بڑھے ہیں تاہم یہ کنتینرز کے کرایوں کا خرچہ ہے، موجودہ صورتحال میں یہ اخراجات تو کچھ بھی نہیں ہیں۔

متعلقہ عنوان :