وزیراعلی اور وزیراعظم سمیت کسی بھی سرکاری عہدیدار کا استعفیٰ مانگا جانا کسی طور پر غیر آئینی یا غیرقانونی نہیں ہے‘ ماضی میں بھی عوامی مطالبے پر استعفے دئیے جاتے رہے ہیں‘ رضا ربانی کے سوالات سراسر مفروضے پر مبنی ہیں جن کا جواب دینا ضروری نہیں ، وزیراعلی پنجاب کا استعفیٰ مانگنا درست ہے ، عوامی تحریک

منگل 16 ستمبر 2014 17:27

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔16ستمبر۔2014ء) سپریم کورٹ میں ممکنہ ماورائے آئین اقدام کیس میں عوامی تحریک نے رضا ربانی کے تین سوالات کے حوالے سے اپنا جواب منگل کو جمع کروادیا جس میں کہا گیا ہے کہ علی ظفر ایڈووکیٹ کی جانب سے دائر جواب میں پاک فوج کو حساس معاملے سے دور رکھنے کی استدعاء بھی کی گئی ہے اور سیاسی معاملات مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی استدعاء کی گئی ہے‘ وزیراعلی اور وزیراعظم سمیت کسی بھی سرکاری عہدیدار کا استعفیٰ مانگا جانا کسی طور پر غیر آئینی یا غیرقانونی نہیں ہے‘ ماضی میں بھی عوامی مطالبے پر استعفے دئیے جاتے رہے ہیں‘ رضا ربانی کے سوالات سراسر مفروضے پر مبنی ہیں جن کا جواب دینا ضروری نہیں تاہم وزیراعلی پنجاب کا استعفیٰ مانگنا درست ہے کیونکہ ماڈل ٹاؤن سانحہ میں 14 معصوم افراد کی ہلاکت اور 90 افراد کے شدید زخمی ہونے کی ذمہ داری ان پر عائد ہوتی ہے۔

(جاری ہے)

ہمارے اس مطالبے کی تمام سیاسی جماعتوں نے بھی حمایت کی ہے۔ فوج کو سہولت کار بننے کیلئے حکومت نے کہا اور اب ان کے کہنے پر عمل بھی نہیں کیا جارہا۔ عدالت عظمیٰ آئینی عدالت ہونے کی وجہ سے سیاسی نوعیت کے سوالات پر نہیں جاسکتی۔ رضا ربانی کے سوالات میں حقائق نہیں بتائے گئے اور نہ ہی ان کا موقف کسی حقیقت سے منسلک ہے۔ عوامی تحریک کے تمامتر مطالبات سراسر آئینی ہیں اور اس حوالے سے رضا ربانی کا سوال غلط ہے۔

پاکستان عوامی تحریک کسی بھی قسم کے تشدد پر یقین نہیں رکھتی اور واضح کرتی ہے کہ دھرنا پرامن طریقے سے جاری رہے گا۔ ایک طرف اے این پی اور پی این پی عدالت کو سیاسی معاملات میں مداخلت نہ کرنے کا کہہ رہے ہیں جبکہ دوسری طرف حیرت انگیز طریقے سے سیاسی سوالات بھی پیش کررہے ہیں۔ دو سوالات تو صرف اور صرف سیاسی ہیں۔ حکومت نے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو سہولت کار خود مقرر کیا تو عوامی تحریک نے اسے خوش آمدید کہا۔

عوامی تحریک اس الزام کو مسترد کرتی ہے کہ اس کے مطالبات غیر آئینی ہیں۔ ہمارے مطالبات سیاسی اور آئینی ہیں اور سوال اٹھایا ہے کہ ایسے وقت میں موجودہ حکومت جائز ہے کہ انتخابات چرائے گئے ہیں۔ کیا سیاسی جماعتوں اور اداروں کے اندر احتساب کا عمل موجود ہے‘ کیا احتساب کرنے والے اداروں کو شفاف اور خودمختار نہیں ہونا چاہئے‘ کیا پچھلے 41 سالوں کے دوران تمام حکومتیں پسماندہ طبقے اور علاقوں کے تعلیمی اور معاشی مفادات کے تحفظ میں ناکام رہی ہیں۔

جہاں جہالت موجود ہے حکومتیں وقت اور لازمی تعلیم سمیت فنی اور اعلی تعلیم کو یقینی نہیں بناسکیں وہ سستا اور فوری انصاف یقینی بنانے میں بھی ناکام رہی ہیں اور عوام کا معیار زندگی بلند نہیں ہوسکا کیونکہ انہیں زندگی اور روزگار کی بنیادی سہولتیں اور سماجی تحفظ حاصل نہیں رہا جس میں خوراک‘ کپڑا‘ مکان‘ تعلیم اور طبی سہولیات شامل ہیں۔

کیا حکومت جمہوریت کے نام پر عوام سے کئے گئے وعدے پورے کرسکی ہے‘ کیا نظم و نسق کا فقدان نہیں‘ کیا نجکاری کے نام پر ریاستی اثاثوں کو لوٹا نہیں جارہا اور کیا نجکاری شفاف نہیں ہونے چاہئے‘ کیا حکومت کو سپریم کورٹ کے مختلف اداروں کے سربراہان کی تقرریوں کی خلاف ورزی کی اجازت دی گئی ہے جبکہ عدالت عظمیٰ تمام اداروں کے سربراہان کے شفاف انداز میں تقرر کا حکم دے چکی ہے لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔

کیا 41 سال سے آئین کے آرٹیکلز 3‘ 4‘ 9‘ 32 تا 38 کی خلاف ورزی نہیں ہورہی۔ کیا موجودہ حکومت انسانی حقوق کے تحفظ میں ناکام نہیں رہی‘ کیا موجودہ حکمران بلدیاتی انتخابات بارے سپریم کورٹ کے فیصلوں کی خلاف ورزی نہیں کررہے جس کا تعلق آئین کے آرٹیکل 140 اے سے ہے۔ کیا ارکان پارلیمنٹ کو گلیوں نالیوں کیلئے فنڈ دئیے جاسکتے ہیں جبکہ پارلیمنٹ کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہئے کیونکہ اس کا کام قانون سازی ہے۔

ہمارا مطالبہ ہے کہ ارکان پارلیمنٹ کو فنڈز دینا بدعنوانی ہے اسے تبدیل ہونا چاہئے۔ کیا مظاہرین اس بات پر یقین کرنے میں غلطی پر ہیں کہ قانون کی نظر میں امیر اور غریب برابر نہیں۔ کیا ماڈل ٹاؤن واقعہ میں غریبوں کو انصاف کی توقع نہیں ہونی چاہئے۔؟ وقت آگیا ہے کہ حکمران ذاتی مفادات کی ملکی مفادات کیلئے قربانی دیں۔ جواب کے آخر میں عدال سے استدعاء کی گئی ہے کہ رضا ربانی کی جانب سے جو درخواست دی گئی ہے اس پر کوئی حکم جاری کئے بغیر اس کو نمٹادیا جائے اور یہ بھی استدعاء کی گئی ہے کہ فوج کو اس حساس معاملے سے باہر رکھا جائے اور سیاسی سوالات پر حکومت سے مذاکرات کی میز پر بات ہونی چاہئے