ایم کیوایم کے کارکنان کے اہل خانہ کو معاوضے کی ادائیگی ،سندھ ہائی کورٹ نے حکومت سندھ کا جواب مسترد کردیا

منگل 16 ستمبر 2014 17:17

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔16ستمبر۔2014ء) سندھ ہائی کورٹ نے ایم کیو ایم کے کارکنان کے ماورائے عدالت قتل ہونے والے کارکنان کے اہل خانہ کو معاوضہ ادا کرنے سے متعلق درخواست پر حکومت سندھ کے جواب کو مسترد کرتے ہوئے عدالتی احکامات پر عملدرآمد کرکے 2ستمبر تک رپورٹ پیش کرنے کا حکم دے دیا ۔۔عدالت عالیہ نے ایم کیو ایم کے 10کارکنان کے ماورائے عدالت قتل کیس اور اہل خانہ کو معاوضہ نہ دینے کے خلاف دائر درخواست پر حکومت سندھ سے تفصیلات طلب کرلی ہیں ۔

کیس کی سماعت چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ جسٹس مقبول باقر اور جسٹس شاہنواز طارق پر مشتمل دو رکنی بنچ نے کی ۔سماعت کے دوران ڈپٹی ایڈوکیٹ جنرل سندھ غلام مصطفی مہیسر نے عدالت کے روبرو حکومت سندھ کی جانب سے ایم کیو ایم کے کارکنان کے ماورائے عدالت قتل اور ان کے اہل خانہ کو معاوضہ ادا کرنے سے متعلق اپنا جواب داخل کرایا ،جسے چیف جسٹس نے مسترد کردیا ۔

(جاری ہے)

سماعت کے دوران ایم کیو ایم کے وکیل علی حسنین بخاری نے عدالت کے روبرو جواب داخل کراتے ہوئے بتایا کہ حکومت نے سندھ میں قتل ہونے والے 30ایسے افراد کے اہل خانہ کو معاوضہ فراہم کیا ہے ،جن کے سروں کی قیمت مقرر تھی ۔عدالت نے اس سے قبل بھی پولیس حراست کے دوران جاں بحق ہونے والے افراد کے اہل خانہ کو معاوضہ دینے کے احکامات جاری کیے تھے ۔کراچی آپریشن کے دوران قتل ہونے والے افراد کو حکومت نے اس سے قبل بھی معاوضہ ادا کیا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ انسانی حقوق سب کے لیے مساوی ہیں ۔اس لیے ایم کیو ایم کے ماورائے عدالت قتل ہونے والے کارکنوں کے اہل خانہ کو بھی معاوضہ ادا کیا جائے ۔عدالت نے حکومت سندھ کو حکم دیا کہ جن لوگوں کو معاوضہ ادا کیا گیا ہے اس کی تفصیلات سے آگاہ کیا جائے ۔واضح رہے کہ سندھ ہائی کورٹ نے ایم کیو ایم کے رکن قومی اسمبلی آصف حسنین اور ڈاکٹر فاروق ستار سمیت کارکنان کے اہل خانہ کی درخواست پر حکومت کو حکم دیا تھا کہ قواعد و ضوابط کے مطابق ان کو معاوضہ ادا کیا جائے ۔

جبکہ وزیرا علیٰ سندھ ،ڈی جی رینجرز ،آئی جی سندھ ،چیف سیکرٹری سندھ ،سیکرٹری داخلہ سندھ سمیت دیگر اعلیٰ حکام پر مشتمل ایسا کمیشن تشکیل دینے کے احکامات دیئے تھے جس میں آپریشن کے دوران ماورائے عدالت قتل کے واقعات کو روکا جائے اور یہ کمیشن تمام فریقین کے لیے قابل قبول ہو۔

متعلقہ عنوان :