سیلابی ریلا پنجاب میں بربادی پھیلاتا ہوا سندھ کی جانب بڑھنے لگا

پیر 15 ستمبر 2014 16:50

لاہور(اردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار15 ستمبر2014) سیلابی ریلا پنجاب میں بربادی پھیلاتا ہوا سندھ کی جانب بڑھنے لگا ، ضلع مظفر گڑھ میں سپر بند ٹوٹنے سے سیلابی پانی سیت پور شہر میں داخل ہو گیا، ہیڈ پنجند کے قریب بیٹ گوپانگ اور سرور آباد ، زمیندارہ بند ٹوٹ گئے، 85 سے زائد دیہات ڈوب گئے ، گدو بیراج پر پانی کی سطح بلند ہونے سے پانی گھوٹکی میں کچے کے علاقوں میں داخل ہوگیا۔

دریائے چناب کے سیلابی ریلے نے اب تک سیکڑوں بستیاں صفحہ ہستی سے مٹا دیں۔ ہیڈ پنجند کے قریب بیٹ گوپانگ اور سرور آباد زمیندارہ بند ٹوٹنے سے 85 سے زائد دیہات ڈوب گئے۔ علی پور میں سیت پور کے مقام پر سپر بند ٹوٹنے سے پانی شہر میں داخل ہوگیا جس کے بعد سیت پور اور علی پور کا زمینی رابطہ منقطع ہوگیا۔ سیت پور اور نواحی علاقوں سے لوگوں کی نقل مکانی جاری ہے۔

(جاری ہے)

دریائے چناب کے بپھرے سیلابی پانی کے سامنے لکھ پال کے مقام پر سرورآباد زمیندارہ بند بھی نہ ٹھہر سکا۔ سیلابی پانی سے متعدد دیہات ڈوب گئے۔ مظفرگڑھ میں دوآبہ حفاظتی بند توڑنے کے بعد بستیوں میں داخل ہونے والے پانی کو دریائے چناب میں واپس ڈالنے کے لیے چک روہاڑی بند بھی توڑ دیا گیا جس سے دوآبہ اور چک روہاڑی کے درمیان تمام دیہات ڈوب گئے اور ہزاروں ایکڑ پر کھڑی فصلیں بھی تباہ ہوگئیں۔

علاقے کا زمینی رابطہ منقطع ہونے کے باعث تمام متاثرین بھوکے پیاسے امداد کے منتظر ہیں۔ پنجند اور تونسہ بیراج پر پانی کی سطح میں اضافہ ہونے کے بعد مٹھن کوٹ سے لوگوں نے نقل مکانی شروع کر دی ہے۔ گڈو بیراج کے مقام پر بھی پانی کی آمد بڑھنے سے سیلابی صورتحال پیدا ہو گئی ہے اور پانی گھوٹکی کے کچے کے دیہات میں داخل ہونا شروع ہو گیا ہے ، متعدد دیہات کا زمینی راستہ کٹ چکا ہے۔

قادر پورہ کے درجنوں دیہات بھی پانی کی لپیٹ میں آ گئے ہیں ، گھوٹکی میں دریا کے پشتوں کی مضبوطی کا کام تیز کر دیا گیا ہے‘حکام کے مطابق آئندہ 24 گھنٹوں کے دوران پنجند ہیڈ ورکس پر اونچے درجے کا سیلاب ہو گا اور آئندہ 24 سے 36 گھنٹوں کے دوران سیلابی ریلا دریائے سندھ میں گدو بیراج پر پہنچے گا۔قدرتی آفات سے نمٹنے کے قومی ادارے این ڈی ایم اے کے مطابق صوبہ پنجاب میں سیلاب کے نتیجے میں اتوار تک 24 لاکھ 19 ہزار 495 افراد متاثر ہو چکے ہیں جبکہ 87 ہزار افراد کو امدادی کیمپوں میں منتقل کیا گیا ہے۔

این ڈی ایم اے کے مطابق سیلاب کے نتیجے میں 15 لاکھ 41 ہزار 807 ایکڑ پر کھڑی فصلیں متاثر ہوئی ہیں اور 2818 دیہات متاثر ہوئے ہیں۔اس کے علاوہ 30021 مکانات جزوی اور 2199 مکانات مکمل طور پر تباہ ہو گئے ہیں۔ اس وقت صوبے میں 421 امدادی اور 709 طبی کیمپ کام کر رہے ہیں۔اس وقت پنجاب میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں سول امدادی اداروں کے علاوہ بّری فوج، فضائیہ اور بحریہ کی مدد سے امدادی کارروائیاں جاری ہیں۔

دوسری جانب حکومت نے آبی گزرگاہوں پر تجاوزات اور قبضوں کے خلاف قانون تو بنادیا لیکن تین سال گزر جانے کے باوجود اس پر عمل درآمد نہ ہوسکا۔ پنجاب میں آنے والے تاریخ کے بدترین سیلاب کی تباہ کاریوں نے سندھ میں 2010ء میں ا?نے والے سیلاب کی یاد تازہ کردی ہے۔جس میں سیکڑوں افراد ہلاک اور لاکھوں ایکٹر اراضی زیرآب آگئی تھی۔ اس تباہی کی بڑی وجہ حفاظتی بندوں کے ٹوٹنے کے علاوہ آبی گزرگاہوں اور سیم نالوں پر تجاوزات تھیں۔

لینڈ مافیا نے کچے کے بعد اب آبی گزر گاہوں پر بھی قبضہ کرلیا ہے۔ پانی کی وہ گزر گاہیں جہاں سے 2010 میں 9 لاکھ کیوسک سے زائد کا سیلابی ریلہ گزرا تھا اب یہاں لینڈ مافیا قابض ہے۔ یہاں رہنے والوں کا کہنا ہے کہ وہ غریب ہیں کہاں جائیں۔گزشتہ سیلاب کی تباہی سے پیپلزپارٹی کی حکومت نے اس حد تک سبق سیکھا کہ سندھ اسمبلی سے سندھ ایرگیشن ایکٹ 2011 منظور کرالیا تاکہ قدرتی برساتی نالوں، دریاوں اور دوسری آبی گزرگاہوں پر تجاوزات کو ختم کیا جاسکے لیکن قانون پر عمل کیا ہوتا۔ انتظامیہ اور متعلقہ اداروں نے ان قبضوں پر آنکھیں بند کرلیں۔محکمہ آبپاشی کا کہنا ہے کہ قابضین کو ہٹانا ہماری نہیں ضلعی انتظامیہ کی ذمہ داری ہے۔

متعلقہ عنوان :