سکاٹش ریفرنڈم،حامی اور مخالف آمنے سامنے

آزاد سکاٹ لینڈ کی مہم کا ہدف ریفرنڈم میں اکثریتی فتح حاصل کرنا ہے، وزریر اعلٰی ایلکس سیمنڈ آزادی کے حق میں فیصلہ کرنے والوں کے پاس اپنے فیصلے پر ندامت کا موقع نہیں ہو گا،السٹر ڈارلنگ

اتوار 14 ستمبر 2014 23:40

سکاٹش ریفرنڈم،حامی اور مخالف آمنے سامنے

لندن(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔14ستمبر۔2014ء)سکاٹ لینڈ کے وزریر اعلٰی ایلکس سیمنڈ نے اٹھارا ستمبر کو ہونے والے ریفرنڈم کو زندگی میں صرف ایک بار ملنے والا موقع قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ آزاد سکاٹ لینڈ کی مہم کا ہدف ریفرنڈم میں اکثریتی فتح حاصل کرنا ہے۔لیکن برطانیہ کو اکٹھا رکھنے والی مہم کے رہنما السٹر ڈارلنگ کا کہنا ہے کہ آزادی کے حق میں فیصلہ کرنے والوں کے پاس اپنے فیصلے پر ندامت کا موقع نہیں ہو گا۔

ان کا کہنا تھا کے ان کی کمپین ان ووٹرز کو ہدف بنا رہی ہے جو ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں کر پائے ہیں۔دونوں رہنما بی بی سی کے اینڈریو مار شو میں ریفرنڈم پر بحث کے لیے مدعو کیے گئے تھے۔رائے عامہ کے حالیہ جائزوں کے مطابق ’ہاں‘ اور ’نہیں‘ کمپین کے درمیان سخت مقابلہ ہے اور یہ وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ جیت کس کی ہو گی۔

(جاری ہے)

مسٹر سیمنڈ کا کہنا تھا کہ ’ہمارا ہدف صرف ایک ووٹ سے نہیں بلکہ بھاری اکثریت سے جیتنا ہے‘۔

سیمنڈ نے دعوٰی کیا کہ آزادی کے مخالفین کی تعداد اتنی زیادہ نہیں، بلکہ بہت سارے لوگ آزادی کے حق میں ہیں لیکن فیصلہ کرنے سے کترا رہے ہیں اور انہیں راضی کرنا ہی ہماری کمپین کی کامیابی کا راز ہے۔‘اس سوال کے جواب میں کہ اگر سکاٹش عوام ریفرنڈم میں آزادی کو مسترد کردیں تو کیا آپ دوبارہ ریفرنڈم کا مطالبہ کریں گے؟ سیمنڈ کا کہنا تھا کہ ’اگر آپ کو سکاٹ لینڈ کا آئینی ریفرنڈم یاد ہو تو وہ پہلی بار 1979 اور پھر دوبارہ 1997 میں ہوا تھا۔

‘السٹر ڈارلنگ کا کہنا تھا کہ میں نے ایک سال پہلے کہ دیا تھا کہ جوں جوں ریفرنڈم کی تاریخ قریب آئے گی، ’ہاں‘ اور ’نہیں‘ میں مقابلہ سخت ہوتا جائے گا۔ ان کے بقول ’اس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں کہ ہم اپنی زندگی کا سب سے اہم اور بڑا فیصلہ کرنے جا رہے ہیں۔‘مسٹر ڈارلنگ کا کہنا تھا کہ ریفرنڈم، انتخابات کی طرح نہیں جس میں ہر پانچ سال کے بعد ووٹر کے پاس اپنا فیصلہ تبدیل کرنے کا اختیار ہوتا ہے، ریفرنڈم میں فیصلے کے بعد آپ پیچھے مڑ کر نہیں دیکھ سکتے۔

ان کا دعویٰ تھا کہ اکثریت نے ابھی تک اپنا فیصلہ نہیں کیا۔’نہیں‘ کمپین کے رہنما کے مطابق اس بارے میں بھی غیر یقینی ہے کہ آزادی حاصل کرنے کے بعد این ایچ ایس اور پنشن سروسز کو کیسے فنڈ کیا جائے گا؟

انہوں نے کہا کہ سکاٹ لینڈ میں اچھی، بڑی اور مثبت تبدیلی برطانیہ سے آزادی حاصل کئیے بغیر ہی لائی جا سکتی ہے۔ ایلکس سیمنڈ نے اینڈریو مار شو کو بتایا کہ اگر سکاٹ لینڈ آزاد ہو جائے تو ’ہاں‘ اور ’نہیں‘ کمپین ٹیمیں صرف ایک ٹیم میں تبدیل ہو جائیں گی اور وہ ہو گی، ’ٹیم سکاٹ لینڈ‘۔

سکاٹش وزیر اعلیٰ کا کہنا تھا کہ کہ آزادی حاصل کرنے کے بعد بینک آف انگلینڈ کو ہی مرکزی بینک کی حیثیت سے استعمال کیا جائے گا اور دونوں حکومتوں کے درمیان قرضوں اور ان کی ادائیگیوں کے معاملات پر بھی معاہدہ کیا جائے گا۔برطانوی حکومت نے واضح کیا ہے کہ آزادی کی صورت میں سکاٹ لینڈ برطانوی پاؤنڈ کو ہی اپنی کرنسی کے طور پر استعمال نہیں کر سکے گا لیکن مسٹر سیمنڈ نے امریکی اکانومسٹ جوزف سٹگلٹز کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ مشترکہ کرنسی انگلینڈ اور سکاٹ لینڈ دونوں کے لیے انتہائی سود مند ثابت ہو گی۔

ایلکس سیمنڈ اور السٹر ڈارلنگ ایسے وقت میں آمنے سامنے بیٹھے تھے جب رائے عامہ کے تین نئے جائزوں نے آزادی مخالف کمپین کی اکثریت ظاہر کی ہے۔نو اور بارہ ستمبر کے درمیان کئے گئے رائے عامہ کے چھ جائزوں کے اکٹھے جائزے کے مطابق ’نہیں‘ کمپین کو اکاون جبکہ ’ہاں‘ کمپین کو انچاس فیصد حمایت حاصل ہے۔آبزرور اخبار کے سروے کے مطابق ’نہیں‘ کمپین کو ترپن جبکہ ’ہاں‘ کمپین کو سینتالیس فیصد حمایت حاصل ہے۔

سنڈے ٹائمز کے سروے کے مطابق،’نہیں‘ کمپین کو پچاس فیصد جبکہ ’ہاں‘ کمپین کو انچاس فیصد سکاٹش عوام کی حمایت حاصل ہے۔البتہ سنڈے ٹیلی گراف کے سروے کے مطابق، سکاٹ لینڈ آزاد ہو جائے گا کیونکہ ’ہاں‘ کمپین کو چون فیصد جبکہ ’نہیں‘ کو چھیالیس فیصد عوام کی حمایت حاصل ہے۔