دولت اسلامیہ کا منشور پشاور میں تقسیم

منگل 2 ستمبر 2014 19:06

دولت اسلامیہ کا منشور پشاور میں تقسیم

پشاور(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔2ستمبر۔2014ء) عراق اور شام میں خلافت کا اعلان کرنے والی دولت اسلامی تنظیم نے بظاہر اب عرب ممالک سے باہر بھی اپنی حمایت بڑھانے کےلیے کوششیں تیز کردی ہیں۔بی بی سی کے مطابق پاکستان اور افغانستان میں داعش کی طرف سے ایک کتابچہ شائع کیا گیا ہے جس میں عام لوگوں سے اسلامی خلافت کی حمایت کی درخواست کی گئی ہے۔

’فتح‘ کے نام سے پشتو اور دری زبانوں میں شائع شدہ بارہ صفحات پر مشتمل یہ کتابچہ پشاور شہر کے افغان پناگزین کیمپوں میں تقسیم کیاگیا ہے ۔یہ اشاعت پشاور میں افغان امور پرکام کرنے والے بعض صحافیوں کو بھی بھیجی گئی ہے۔ کتابچے میں کہا گیا ہے کہ خلافت کو خراسان یعنی پاکستان، افغانستان ، ایران اور وسطی ایشیا کے ممالک تک پھیلایا جائے گا۔

(جاری ہے)

کتابچے کے آخری صفحے پر مدیر کا نام بھی لکھا گیا ہے جو بظاہر ایک فرضی نام معلوم ہوتا ہے جبکہ ان کا ای میل پتہ بھی دیا گیا ہے۔ تاہم اشاعت میں اس بات کو واضح نہیں کیا گیا ہے کہ یہ کتابچہ کہاں سے شائع کیا گیا ہے۔پشاور میں افغان امور پر کام کرنے والے سینیئر صحافی تحسین اللہ کا کہنا ہے کہ ایسی اطلاعات ہیں کہ داعش کی طرف سے شائع کردہ کتابچہ افغانستان کے بعض سرحدی صوبوں میں بھی تقسیم کیا گیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ بظاہر اس اشاعت کا مقصد اس خطے میں اسلامی خلافت کےلیے حمایت حاصل کرنا ہے۔ انھوں نے کہا کہ دولت اسلامیہ کی جانب سے یہ اپنی نوعیت کی پہلی ایسی کوشش ہے جس میں عام لوگوں سے خلافت کی حمایت کی درخواست کی گئی ہے۔تحسین اللہ نے مزید کہا کہ افغانستان اور پاکستان میں بعض شدت پسندوں نے دولت اسلامیہ کے امیر المومنین ابوبکر بغدادی کی حمایت کا اعلان بھی کیا ہے۔

عراق اور شام میں تقریباً دو ماہ قبل جب داعش کی جانب سے خلافت کا اعلان کیا گیا تو پاکستان میں بھی تحریک خلافت نامی ایک غیر معروف تنظیم نے اس کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔ یہ تنظیم خود کو طالبان کا ایک دھڑا قرار دیتی ہے ۔پڑوسی ملک افغانستان میں بھی بعض سلفی طالبان نے ابوبکر بغدادی کو اپنا امیر المومنین تسلیم کر لیا ہے۔ افغانستان میں طالبان کے قریب رہنے والے دو شدت پسند علماء عبدالرحیم مسلم دوست اور مولوی عبد القہار کی طرف سے کچھ عرصہ قبل ایک ویڈیو پیغام جاری کیا گیا تھا جس میں انھوں نے دولت اسلامیہ کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔

خیبر پختونخوا کے کچھ علاقوں میں بھی داعش کے حق میں وال چاکنگ دیکھی گئی ہے جبکہ لوگوں نے اپنی گاڑیوں میں دولت اسلامیہ کے حمایت میں پوسٹرز بھی لگائے ہیں۔سوال یہ ہے کہ اسلامی خلافت کا قیام اس علاقے کےلیے کتنا اہمیت کا حامل ہے اور کیا یہاں کی شدت پسند تنظمیں اس کا حصہ بن سکتی ہے؟پشاور میں شدت پسندی اور عسکری تنظیموں پر تحقیق کرنے والے تجزیہ نگار اور مصنف پروفیسر ڈاکٹر خادم حسین کا کہنا ہے کہ چونکہ اس خطے میں شدت پسند تنظیموں کے لیے پہلے سے ایک بھر پور خلا موجود ہے اسی وجہ سے دولت اسلامیہ کو یہاں سے حمایت ملنے کا امکان زیادہ ہے۔

انھوں نے کہا کہ اکثر اوقات دیکھا گیا ہے کہ انتہا پسند تنظیموں کے مرکزی دھارے سے چھوٹی موٹی عسکری گروہ یا کمانڈرز اختلافات کے باعث کٹ جاتے ہیں اور موجودہ حالات میں ایسی ہی تنظیمیں دولت اسلامیہ کی طرف جا سکتی ہے۔انھوں نے کہا کہ ایسی شدت پسند گروہوں کو اپنی نظریات کے تکمیل کے لیے ایک آئیڈیل کی بھی ضرورت ہوتی ہے جو ابوبکر بغدادی کی شکل میں انھیں ایک ’ماڈل‘ مل چکا ہے۔

ان کے مطابق ایسے اشارے مل رہے ہیں کہ یہاں کی بعض عسکریت تنظیمیں داعش سے منسلک ہو سکتی ہے کیونکہ دولت اسلامیہ بھی خراسان کا استعارہ استعمال کر رہی ہے اور یہاں سرگرم عسکریت پسند بھی وسیع تر خلافت کے قیام پر یقین رکھتے ہیں۔پاکستان میں حال ہی میں وجود میں آنے والی شدت پسند تنظیم جماعت الااحرار بھی خراسان کے نظریے پر یقین رکھتی ہے یعنی وہ خلافت کا قیام پاکستان، افغانستان، ایران اور وسطی اشیا کے ممالک تک وسعت دینے کو اپنا مقصد سمجھتے ہیں۔تاہم اس تنظیم نے ابوبکر بغدادی کو اپنا امیر المومنین تو تسلیم نہیں کیا ہے لیکن ان کو زبردست الفاظ میں خراج تحسین ضرور پیش کیا ہے۔ جماعت الااحرار افغان طالبان کے سربراہ ملا محمد عمر کو اپنا امیر المومنین قرار دیتے ہیں۔

متعلقہ عنوان :