نواز شریف کے راست باز وکیل فخرالدین کی اچانک بیماری ناقابل فہم تھی ،شاہد اورکزئی کا کھلا خط

ہفتہ 30 اگست 2014 16:28

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔30اگست۔2014ء) سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس جواد ایس خواجہ سے اس امر کی تصدیق طلب کی گئی ہے کہ میمو کیس کی اولین سماعت میں انہوں نے مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں نواز شریف کی بذات خود پیشی پر اعتراض کیا تھا جبکہ 9 رکنی بنچ کے سربراہ جسٹس افتخار محمد چوہدری نے انہیں اپنی درخواست کی پیروی کی خصوصی اجازت دی۔

ایک کھلے خط میں جسٹس جواد ایس خواجہ سے کہا گیا کہ دو افراد نے سازباز کرکے سپریم کورٹ سے دھوکہ دہی کی اور نتیجتاً ان میں سے ایک فی الحال وزیراعظم پاکستان ہے۔ مکتوب میں کہا گیا ہے کہ سوال نواز شریف کے وکیل کی اچانک بیماری کا نہیں کیونکہ بیماری اور مکاری دو مختلف چیزیں ہیں۔ (ن) لیگ کے آٹھ زعماء اپنے وکلاء کے ہمراہ عدالت میں حاضر تھے اور دریں حالات نواز شریف کے راست باز وکیل فخرالدین کی اچانک بیماری ناقابل فہم تھی یا تو مذکورہ ایڈووکیٹ واقعتاً بیمار تھے یا نواز شریف نے جان بوجھ کر عدالت سے جھوٹ بولا کیونکہ اس روز وہ خود مرکز نگاہ بننا چاہتے تھے اور عدالت کو دھوکہ دے کر انہوں نے اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرلئے۔

(جاری ہے)

مکتوب نگار صحافی شاہد اورکزئی نے پوچھا کہ آخر کس کے ایماء پر ان کا وکیل بعدازاں عدالت سے رفوچکر ہوگیا۔ کیا عدالت نے اس سے بیماری کا سرٹیفکیٹ طلب کیا تھا جو آدمی کسی سیاستدان کے اشارے پر غائب ہوجائے‘ کیا وہ اس لائق ہی کہ اسے الیکشن کمیشن کا سربراہ بنادیا جائے۔ موصوف ہی بتا سکتے ہیں کہ وہ اپنے ضمیر کی ملامتت پر یا پھر طاقتور موکل کی ہدایت پر قومی سلامتی کے اس اہم مقدمے سے الگ ہوئے۔

جسٹس خواجہ سے کہا گیا کہ جب کبھی ایسے چالباز شخص کو چیف الیکشن کمشنر بنایا جائے گا تو وزیراعظم بھی اسی قماش کا ہوگا۔ جسٹس جواد ایس خواجہ سے کہا گیا کہ وہ سپریم کورٹ کے علاوہ جوڈیسل کمیشن اور سپریم جوڈیشل کونسل کے سینئر ترین وکیل ہیں اور سنیارٹی سے قطع نظر ان کے فرمودات اور تفکرات شہ سرخیوں میں شائع ہوتے ہیں۔ چیف الیکشن کمشنر کی اخلاقی حیثیت پر اعتراض اٹھے تو عوام الناس آپ سے دو ٹوک جواب سننا چاہتے ہیں اس بات کی پرواہ نہ کیجئے کہ ایک شخص آج وزیراعظم ہے کیونکہ جناب کا آئینی حلف سب لوگوں کیساتھ بلاخوف و خوشنودی ایک برابر سلوک کا وعدہ کرتا ہے۔

نواز شریف پر آپ کا اعتراض عدالتی قواعد کے عین مطابق تھا اور اشارہ دے رہا تھا کہ افتخار محمد چوہدری سیاست میں شریک کار نہ تھے۔ جسٹس خواجہ سے پوچھا گیا کہ میمو کیس کا کیا بنا اور اس میں پاکستان رکاوٹ بنا ہے یا پینٹاگون؟ نواز شریف کیساتھ ممنون حسین‘ خواجہ آصف‘ اسحق ڈار اور جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ بھی اس مقدمے کے اہم فریق تھے لیکن آج سیاست نے ان سب کا منہ بند کردیا ہے۔ شاہد اورکزئی نے کہا کہ اگر جج صاحب اپنے اعتراض کی تردید کردیں تو وہ بھی نواز شریف کیخلاف توہین عدالت کی درخواست میں ترمیم کردے گا لیکن قانون اپنے راستے پر چلے یا نہ چلے سچائی بہرحال اپنا راستہ بنائے گی۔ وزیراعظم جس طرف چاہے جاسکتا ہے لیکن جج کو ہمیشہ صرف سیدھا چلنا ہے

متعلقہ عنوان :