آئی ایس پی آر کا بیان حکومت کی مشاورت اور باقاعدہ طور پر وزیراعظم کی اجازت سے جاری کیا گیا ،چوہدری نثار علی خان

جمعہ 29 اگست 2014 21:33

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔29اگست۔2014ء) وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا ہے کہ آئی ایس پی آر کا بیان حکومت کی مشاورت اور باقاعدہ طور پر وزیراعظم کی اجازت سے جاری کیا گیا ، فوج کو ثالث یا ضامن بنانے کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی گئی البتہ سہولت کار کا کردار ادا کرنے کی حکومت نے اجازت دی، آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز سے حکومت کے موقف کی تائید ہوئی ہے اور اس سے متعلق پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے میری اور وزیراعظم کی تقریر و وضاحت موجود ہے مگر اس کے باوجود جان بوجھ کر ابہام پیدا کرنے ، غلط فہمی پھیلانے اور پاک فوج کے کردار کو مشکوک بنانے کی کوشش کی گئی جو انتہائی افسوسناک ہے ،پاک فوج آرٹیکل 245کے تحت پہلے سے ریڈ زون میں موجود ہے مگر عمران خان اور طاہر القادری ذاتی انا کی فصیل کھڑی کرنے کے علاوہ کچھ کرنے کو تیار ہی نہیں ، فریقین پارلیمنٹ ہاؤس ، جمہوریت ، الیکشن کمیشن آف پاکستان ، الیکشن ٹربیونل اور سپریم کورٹ آف پاکستان سمیت کسی ادارے کو تسلیم کرنے کو تیار ہی نہیں ، عمران خان اور طاہر القادری پاک فوج کے اگر اتنے ہی ہمدرد ہیں تو فوج کو گلی کوچوں میں کھڑا ہونے سے بچائیں اگر آپ کو فوج کو امتحان میں کھڑا کرینگے تو یہ کتنا بڑا امتحان ہوگا اور اگر افواج پاکستان آپ کو راستہ دیتی ہیں تو یہ ان پر کتنا بڑا الزام ہوگا ، ریڈ زون میں اس سے آگے ریڈ لائنز ہیں اگر ان کو عبور کیا گیا تو سکیورٹی فورسز قانون اور سکیورٹی ادارے اپنے فرض کو پورا کرنے کیلئے حرکت میں ضرور آئینگے ، موجودہ بحران کا حل صرف اور صرف مذاکرات ہیں اس کے علاوہ کوئی حل نہیں ۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعہ کی شام پنجاب ہاؤس میں آئی ایس پی آر کے بیان کے بعد ہنگامی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ انہوں نے کہا کہ جمعرات کے روز آرمی اور حکومت کے درمیان مشاورت ہوئی جبکہ وزیراعظم اور چیف آف آرمی سٹاف کے درمیان ہونے والی ملاقات میں بھی اس بات پرغور حوض کیا گیا اور معاملے کا مذاکرات کے ذریعے مثبت حل نکالنے پر اتفاق ہوا ۔

مگر اس حوالے سے جو فیصلہ کیا گیا اس پر ایک ابہام پھیلا دیا گیاہے اوراسے آئینی اور غیر آئینی لبادہ پہنانے کی کوشش کی جاتی رہی سمجھ نہیں آرہی غلط فہمی جان بوجھ کر پیدا کرنے کی کوشش کیوں کی جارہی ہے اور فوج کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرنا چاہتے ہیں مگر خدارا ان سے درخواست ہے کہ فوج کو سیاست سے الگ رکھا جائے اور انہیں متنازعہ نہ بنایا جائے کیونکہ افواج پاکستان اس وقت پاکستان کے تحفظ اور دفاع کی جنگ لڑ رہے ہیں جس کیلئے وہ اپنی جانیں قربان کررہے ہیں اگر فوج کو اس طرح سیاسی معاملات اور گلی کوچوں میں گھسیٹا جائے گا تو اس پر فرق پڑے گا اور پوری دنیا ہم پر ہنسے گی پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے اسمبلی اجلاس میں میری اور وزیراعظم کی تقریر کو بھی جان بوجھ کر متنازعہ بنانے کی کوشش کی گئی ۔

اس موقع پر چوہدری نثار نے پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے کی گئی اپنی تقریر پڑھ کر سنائی جس میں کہا گیا تھا کہ آپ افواج پاکستان کو بدنام کرنے کی بجائے مذاکرات کے ذریعے معاملے کو حل کریں فوج مسلم لیگ (ن) سمیت کسی سیاسی جماعت کی نہیں بلکہ پاکستان کی ہے اور اس بات کی وضاحت ہونا ضروری ہے کہ کچھ لوگ ذاتی انا کی فصیل کھڑی کرنے کی بجائے اصل راستے پر کیوں نہیں آتے۔

ان کا کہنا تھا کہ اکثر و بیشتر انفرادی طور پر اور وزیراعظم کی موجودگی میں بھی چیف آف آرمی سٹاف سے سکیورٹی امور سمیت مختلف معاملات پر ملاقات جاری رہتی ہے مگر اس ایشو کو بھی متنازعہ بنانے کی کوشش کی گئی اور میں بار بار یہی کہتا رہا کہ فوج کا اس معاملے سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ۔ آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز کے حوالے سے ان کاکہنا تھا کہ آئی ایس پی آر کا بیان باقاعدہ مشاورت سے جاری ہوا یہ بیان پہلے انہیں دکھایا گیا جس کے بعد وزیراعظم کو دکھایا گیا اور وزیراعظم کی اجازت سے باقاعدہ طور پر جاری کیا گیا ۔

یہ بیان حکومت کے موقف کی عکاسی کررہا ہے اور جو دو روز سے ایک طوفان برپا کیا ہوا تھا اس طوفان کا بھی واضح جواب ہے اس کے باوجود اگر کچھ لوگ غلط فہمیاں کھڑی کرنا چاہتے ہیں تو ان پر ہمارا بس نہیں چلتا ۔ ان کا کہنا تھا کہ نہ کسی نے فوج سے درخواست کی اور حکومت نے کسی کو ضامن اور ثالث بنایا ہے آپ پاکستانی فوج کو بدنام کرنے کی بجائے اسے مضبوط کریں کیونکہ یہ پاکستان کے دفاع کی ضامن ہے اور فوج کے لئے دفاع کا ضامن ہونا ہی کافی ہے اسے سیاسی معاملات میں نہ گھسیٹا جائے ۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی افواج بالکل غیر سیاسی اور مکمل طور پر پیشہ ور ہے اور پیشہ ورانہ امور پر توجہ دینے کے علاوہ اور ملکی دفاع کے علاوہ افواج پاکستان کا ان سیاسی معاملات سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔چوہدری نثار علی خان کا کہنا تھا کہ جمعرات کے روز کا فیصلہ آئین و قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے سہولت کار کے طور پر کیا گیا تھا ضامن اور ثالث آئینی و غیر قانونی جیسے الفاظ خود سے جوڑے گئے ہیں فوج آرٹیکل 245کے تحت پہلے سے ریڈزون میں موجود ہیں اس کی حفاظت کیلئے ، سپریم کورٹ کے فیصلے کی پاسداری کیلئے اور ریاست کی علامت عمارتوں کی حفاظت کیلئے آئین و قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے دھرنے کے شرکاء کو ریڈ زون میں داخل ہونے سے پہلے فوج کی خدمات حاصل کررکھی ہیں اور اسی اختیار کے تحت انہیں سہولت کار کی اجازت دی گئی تاکہ معاملات حل کئے جائیں اور دوسری طرف سے یہ اشارہ مل رہا تھا کہ فریقین کو پاک فوج پر زیادہ اعتبار ہے کیونکہ عمران خان اور طاہر القادری نے ان تمام اپوزیشن جماعتوں کو بھی مذاکرات کے حوالے سے انکار کردیا تھا جو کسی نہ کسی طرح سے ان کی اتحادی بھی ہیں جبکہ پارلیمنٹ ہاؤس ، الیکشن کمیشن آف پاکستان ، الیکشن ٹربیونل ، سپریم کورٹ آف پاکستان ، سول سوسائٹی ، وکلاء سمیت ہر قسم کے ادارے اور کمیشن کو بھی دونوں فریقین نے مذاکرات کیلئے انکار کردیا تھا ۔

ایک اور سوال کے جواب میں ان کا کہناتھا کہ جب وہ لاہور میں تھے انہیں ایک کال آئی جس میں مذکورہ مطالبہ کیا گیا اور کہا کہ اس حوالے سے آپ باقاعدہ پریس کانفرنس کرکے آگاہ کرینگے حکومت نے فوج کو مذاکرات کے حوالے سے سہولت کاری کا اختیار دے دیا ہے جس پر میں نے جواب دیا کہ میں خود لاہور میں ہو البتہ میڈیا کے ان دوستوں کے ذریعے آگاہ کردینگے جن کے موبائل فون نمبر ہمارے پاس موجود ہیں ۔

ان کا کہنا تھا کہ جمعرات کی شام جاری ہونے والا بیان بھی مکمل واضح تھا اور قومی اسمبلی کے اجلاس میں کی جانے والی تقاریر میں بھی ایسا کوئی الفاظ مواد شامل نہیں تھا جس طرح کی غلط فہمیاں پیدا کی جارہی ہیں ۔ افواج پاکستان پر پوری قوم کو اعتماد ہے اور آرمی چیف سے لیکر نیچے تک عسکری قیادت کے ساتھ بہترین تعلقات موجود ہیں اور ایسی کوئی خلاء یا اختلافات حکومت اور فوج کے درمیان نہیں جس طرح کے اختلافات پیدا کرنے کا تاثر دیا جاتا ہے ۔

انہوں نے واضح کیا کہ لشکر کشی کے کھیل کے ذریعے کسی بھی صورت وزیراعظم نہ تو استعفیٰ دینگے اور نہ ہی جمہوریت کو ڈی ریل کیا جائے گا حکومت نے طاہر القادری کے مطالبے پر تین روز قبل سانحہ ماڈل ٹاؤن کے افسوسناک واقعہ کی ایف آئی آر درج کرنے کا فیصلہ کیا جس میں وزیراعظم ، وزیراعلیٰ اور پانچ وفاقی وزراء سمیت اکیس سے زائد افراد کیخلاف مقدمہ درج کیا گیا جن میں سے چند لوگوں کو مقدمہ میں نامزد کرنے کا کسی قسم کا جواز موجود نہیں تھا جبکہ عمران خان کے پانچوں مطالبات تسلیم کرلئے گئے اور اس حد تک بھی مان لیا گیا کہ اگر سپریم کورٹ کے آزاد اور خود مختار کمیشن کی تحقیقات کے بعد یہ با ت ثابت ہوجائے کہ منصوبہ بندی کے تحت بھاری دھاندلی ہوئی ہے تو نہ صرف وزیراعظم مستعفی ہونگے بلکہ ساری اسمبلیا ں گھر جائینگی اور دوبارہ انتخابات ہونگے مگر طاہر القادری اور عمران خان چند ہزار لوگوں کے ذریعے انتشار اور لشکر کشی کا ارادہ رکھتے ہیں ان دس ہزار لوگوں میں پانچ ہزار سے زائد منہا ج القرآن کے ملازمین بھی شامل ہیں جبکہ تحریک انصاف کے دس لاکھ کے دعوے کے دھرنے میں روزانہ چار پانچ سو سے زائد افراد موجود ن ہیں ہوتے مگر عمران خان ان چار پانچ سو افراد کے سامنے 45,45منٹ تقریریں کرتے ہیں اور تاثر اس طرح دیتے ہیں جیسا وزیراعظم کے ساتھ ان کی ذاتی دشمنی ہے یہ سیاست ہے اگر کوئی فریق غلطی پر ہے تو بھی مذاکرات کے ذریعے حل نکلے گا اور اگر کسی فریق کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے تو بھی آئین اور قانون کے مطابق معاملے کو حل کیاجائے گا ۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اس سے آگے ریڈ لائنز ہیں اگر کسی کو یہ غلط فہمی ہے کہ وہ ان ریڈ لائنز کو عبور کرے گا تو پولیس قانون اور وہ پاک فوج ضرور حرکت میں آئے گی جو اس وقت ریڈ زون میں آئین کے آرٹیکل 245کے تحت ریاست کی علامت عمارتوں کی حفاظت پر تعینات ہیں اور اگر عمران خان یا طاہر القادری اس وقت افواج پاکستان کو امتحان میں ڈالتے ہیں تو وہ سوچ لیں یہ کس قدر بڑا اور سنگین امتحان ہوگا اور اگر افواج پاکستان انہیں آگے جانے کی اجازت دے دیتی ہے تو ان پر یہ کس قسم کا الزام ہوگا ۔

انہوں نے حکومت کی طرف سے مذاکرات میں غیر سنجیدگی کے تاثر کو رد کرتے ہوئے کہا کہ حکومت مکمل طورپر سنجیدہ ہے اور دونوں فریقین کے تمام مطالبات مان لئے گئے ہیں مگر دونوں فریقین لاشوں کی سیاست پر یقین رکھتے ہیں جس کا ثبوت یہ ہے کہ پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے گرین ایریا پر کبھی قبریں کھودی جاتی ہیں اور کبھی زندہ افراد کو کفن پہنایا جاتا ہے مگر معاملے کا حل صرف اور صرف مذاکرات ہیں اس کے علاوہ کوئی تیسرا آپشن موجود نہیں ۔