قومی وطن پارٹی آئین کی بالادستی اورجمہوریت کا استحکام چاہتی ہے،آفتاب شیرپاؤ،

تمام اپوزیشن جماعتوں نے وفاقی حکومت کو دست تعاون اس لئے دیاتاکہ ملک میں آئین کی بالادستی اور جمہوریت کا استحکام قائم و دائم رہے،پشاورمیں ا جلاس سے خطاب

جمعہ 29 اگست 2014 20:14

پشاور(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔29اگست۔2014ء) قومی وطن پارٹی کے چےئرمین آفتاب خان شیرپاؤنے کہا ہے کہ قومی وطن پارٹی آئین کی بالادستی اورجمہوریت کا استحکام چاہتی ہے تاکہ ملک میں جمہوریت کا سفر رواں دواں رہے۔ ان خیالات کا اظہار انھوں نے وطن کور پشاورمیں پارٹی کے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔اس موقع پر پارٹی کے پارلیمانی لیڈر سکندر حیات خان شیرپاؤ،جسٹس ریٹائرڈ شاہ جھان خان،حاجی غفران،ہاشم بابر،جمیل ایڈووکیٹ،اسد آفریدی ،معراج ہمایون خان،کفایت علی ایڈووکیٹ اور طارق احمد خان بھی موجود تھے۔

اجلاس میں ملک کی مجموعی سیاسی صورتحال پر بات چیت ہوئی۔آفتاب شیرپاؤ نے کہا کہ تمام اپوزیشن جماعتوں نے وفاقی حکومت کو دست تعاون اس لئے دیا ہے تاکہ ملک میں آئین کی بالادستی اور جمہوریت کا استحکام قائم و دائم رہے۔

(جاری ہے)

انھوں نے کہا کہ ملک میں موجودہ صورتحال پر بروقت قابوپایا جا سکتا تھا لیکن دونوں فریقین کی غلطیوں سے معاملہ گھبیر ہوگیا انھوں نے کہا کہ ہم سجھتے ہیں کہ تمام مسائل کو آئین کے اندر رہتے ہوئے مستقل طور پر حل کیا جانا چاہیے۔

آفتاب شیرپاؤ نے کہا کہ آج چھوٹے صوبوں میں محرومی کا احساس بڑھ رہا ہے کیونکہ حکومت نے ان کے مسائل حل کرنے پر توجہ نہیں دی انھوں نے کہا کہ موجودہ صورتحال میں چھوٹے صوبوں کے مسائل حل کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔قومی وطن پارٹی کے چےئرمین نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ نے خیبر پختونخوا کو بری طرح متاثر کیا ہے کیونکہ اس جنگ میں ہزاروں افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں اور انفراسٹرکچر تباہ ہو چکا ہے ۔

انھوں نے کہا کہ آپریشن کے نتیجے میں بے گھر ہونے والے لاکھوں افراد کیمپوں میں کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزار رہے ہیں اور ان کا کوئی پرسان حال نہیں۔انھوں نے کہا کہ موجودہ صورتحال میں ملک سیاسی عدم استحکام کا متحمل نہیں ہو سکتا اور ہمیں چاہیے کہ قوم کو درپیش مسائل کے حل پر توجہ دیں۔عوام کو درپیش مسائل کی طرف توجہ دلاتے ہوئے انھوں نے کہا کہ دھرنوں کی سیاست کی وجہ سے عوامی مسائل پس پشت چلے گئے ہیں۔انھوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کی وجہ سے سب سے زیادہ پختون متاثر ہوئے ہیں اور ان کو معاشی اور انتظامی معاملات میں مرکز کی جانب سے مایوسی کا سامنا ہے ۔