جنوبی کوریا: کتے کے گوشت کی فروخت اور مخالفت میں اضافہ ہونے لگا

جمعہ 29 اگست 2014 14:56

سیول(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔29اگست۔2014ء)جنوبی کوریا میں کتے کے گوشت سے بنے درجنوں روایتی کھانے بہت مقبول ہیں۔ لیکن اب جانوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیمیں کتوں کے حقوق کے لییاٹھ کھڑی ہوئی ہیں، جس سے کتوں کے گوشت کی فروخت کی مخالفت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق جنوبی کوریا کے دارالحکومت سیئول میں خاتون ’او کیوم اِل‘ کا مشہور ریستوران قائم ہے اور جنوبی کوریا کے دو سابق صدور اس ہوٹل سے اپنا پسندیدہ کھانا کھا چکے ہیں۔

وہ گزشتہ تیس برسوں سے وہاں کتے کے گوشت سے بنے روایتی کھانے پیش کر رہی ہیں۔ اس ریستوران میں جنوبی کوریا کی سب سے مشہور روایتی ڈش ’بِی بِم باپ‘ اور سْوپ ’بوشین ٹانگ‘ بھی تیار کی جاتی ہے۔

(جاری ہے)

گزشتہ کئی صدیوں سے اس خطے کی ثقافت کا حصہ سمجھا جانے والا یہ کھانا اب ماضی کا حصہ بن سکتا ہے۔ گزشتہ جمعے کے روز اس ریستوران میں سوپ کی آخری پیالی پیش کی گئی۔

اس ہوٹل کی مالکہ ’او کیوم اِل‘ کا کہنا ہے کہ اب ’جنریشن گیپ‘ بہت زیادہ ہو گیا ہے۔ ان کو نوجوان گاہک نہیں مل رہے اور ملک میں کتے کے گوشت کی مخالفت میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ جنوبی کوریا میں کتے کے گوشت کی بڑھتی ہوئی مخالفت کی وجہ سے اب ایسے بہت سے ریستوران بند ہوتے جا رہے ہیں، جو روایتی کھانوں کی وجہ سے مشہور تھے۔جانوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کے مطابق تاریخ کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ جانور اور انسان ایک دوسرے کے ساتھ رہ سکتے ہیں۔

لہذا ان کا گوشت کھانے کی بجائے ان کو ایک وفا دار دوست کے طور پر پالا جانا چاہیے۔ جنوبی کوریا میں کتے کے گوشت کی فروخت سے متعلق تنازعہ رواں برس گرمیوں میں شدت اختیار کر گیا تھا۔ جنوبی کوریا میں سخت گرمی کے تین دنوں کو ”ڈوگ ڈیز“ کے طور پر منایا جاتا ہے اور گرمی کے ان دنوں زیادہ تر کتے کا گوشت کھایا اور سبزیوں کے ساتھ بنایا گیا ’ہاٹ ریڈ سوپ‘ پیا جاتا ہے۔

جنوبی اور شمالی کوریا میں خیال کیا جاتا ہے کہ اس سے گرمی کی شدت برداشت کرنے کی طاقت میں اضافہ ہوتا ہے۔ رواں برس جانوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکن احتجاج کرنے کے لیے ان ریستورانوں کے باہر جمع ہوئے ، جہاں کتوں کے گوشت سے بنے روایتی کھانے پیش کیے جاتے ہیں۔کتوں کا گوشت چین اور ویتنام جیسے ملکوں میں بھی بہت مشہور ہے۔ جنوبی کوریا میں کتوں کے گوشت کی روایت نے اس وقت سترہویں صدی میں جڑیں پکڑیں، جب کوریائی طب کی ایک کتاب میں کتے کے گوشت کے فوائد بیان کیے گئے۔

جانوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کے مطابق جنوبی کوریا میں سالانہ تقریبا دو ملین کتوں کا گوشت کھایا جاتا ہے اور انہیں ہلاک بھی انتہائی تکلیف دہ طریقے سے کیا جاتا ہے۔مبصرین کے مطابق کتے کے گوشت کا سوپ چکن سوپ سے قدرے مہنگا بھی ہے اور نوجوان نسل اسے زیادہ پسند بھی نہیں کرتی۔ نانگیوپ اکنامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے مطابق جنوبی کوریا کی نئی نسل میں پالتو جانوروں کے کاروبار میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور ایک اندازے کے مطابق وہاں پالتو جانوروں کا کاروبار سن 2020ء تک سالانہ چھ بلین ڈالر تک پہنچ جائے گا۔