جمہوریت کو سب سے زیادہ نقصان حکمرانوں نے پہنچایا ہے ،سید منور حسن،

سید مودودی نے انسانوں کے پیش کیے گئے سارے نظام کے مقابلے میں اللہ کے نظام کو پورے نظام کے طور پر پیش کیا، یوم تاسیس کی تقرب سے خطاب

جمعرات 28 اگست 2014 19:21

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔28اگست۔2014ء) سابق امیر جماعت اسلامی پاکستان سید منور حسن نے کہا ہے کہ جمہوریت کو سب سے زیادہ نقصان حکمرانوں نے پہنچایا ہے جمہوریت کے چیمپئن بن کر حکمرانوں نے غیر جمہوری رویوں کو جنم دیاہے یہ جمہوریت نہیں جبر ہے حالات کو بہتر بنانے کے لیے جماعت اسلامی نے بھر پور کوشش کی ہے ملک نازک حالات سے گزررہا ہے فریقین کو اپنے رویے پر نظر ثانی کرنی چاہیے ۔

جمہوریت کے بغیر چاروں صوبوں کو متحد رکھنا مشکل ہے جمہوریت کے نام پر جو کچھ حکمران کرتے رہے وہ جمہوریت نہیں غلامی کا طوق ہے ۔جماعت اسلامی اور مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی نے انسانوں کے پیش کیے گئے سارے نظام کے مقابلے میں اللہ کے نظام کو ایک پورے نظام کے طور پر پیش کیا ۔یوم تاسیس منانے کا مقصد یہ ہے کہ اپنے سبق کو یاد کیا جائے اور تذکیر و نصیحت کے ذریعے جدو جہد کو تیز کیا جائے ان خیالات کا اظہار انہوں نے جماعت اسلامی کراچی کے زیر اہتمام ادارہ نور حق میں جماعت اسلامی کے 74ویں یوم تاسیس کے سلسلے میں منعقدہ اجتماع عام سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔

(جاری ہے)

اجتماع سے سینئر صحافی اور کالم نگار سجاد میر،معروف صحافی اور دانش ور شاہنواز فاروقی ،امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن اور دیگر نے بھی خطاب کیا ۔اس موقع پر سابق سٹی ناظم نعمت اللہ خان ایڈوکیٹ اور دیگر ذمہ داران بھی موجود تھے ۔اجتماع میں جماعت اسلامی کے بزرگ اور دیرینہ ارکان نے اپنے تاثرات کا اظہار کیا ۔نظامت کے فرائض سیکریٹری کراچی عبد الوہاب نے ادا کیے۔

سید منور حسن نے کہا کہ بر صغیر ہندو پاک میں تبدیلی اور مستقبل کے حوالے سے جو تحریکیں برپا ہوئیں انہوں نے اس کا خوب اچھی طرح مطالعہ کیا ان کو جانچا اور پھر اس نتیجے پر پہنچے کہ مسلمان خود ایک قوم ہیں اور ان کا ایک نصب العین اور مقصد ہے ،مولانا نے امت کی بیداری کے لیے بڑی جدو جہد کی یہ دور کشمکش کا دور تھا ،سیکولر ازم ،لبرل ازم اور قوم پرستی کی تحریکوں کا دور تھا ۔

سید منور حسن نے کہا کہ مولانا کے لٹریچر نے مسلمانوں کے احساس کمتری کو دور کیا اور ماحول کو بدل دیا جس نے مولانا کو پڑھا وہ اس بات کو سمجھ گیا کہ اسلام ایک نظام زندگی ہے اسلام انسانوں کی کردار سازی کرتا ہے اور ان کو زندگی گزارنے کے سارے طریقے بتاتا ہے ۔مولانا مودودی نے اسلام کی تعلیمات کو عقل کی کوئی کسوٹی پر پورا نہ اترنے کے تصور کو مسترد کر دیا اور ثابت کیا کہ اسلامی تصورات عقل کی کسوٹی پر پورے اترتے ہیں ۔

مولانا مودودی نے نظاموں کی کشمکشوں میں لوگوں کو تیار کیا کہ وہ خود اُٹھیں اور اسلامی نظام کے قیام کی جدو جہد شروع کر دیں۔مولانا مودودی نے یہ تصور پیش کیا کہ امت ایک مشن کے لیے برپا کی گئی ہے اور امت کا مقصد لوگوں کو اللہ کی طرف بلانے کا مقصد ہے خوابیدہ لوگوں کو اٹھایا اورجگایا جائے ۔انہوں نے کہا کہ یوم تاسیس منانے کا مقصد یہ ہے کہ اپنے سبق اور مقصد کو یاد کیا جائے اور تذکیر و نصیحت کے ذریعے جدو جہد کو تیز کیا جائے ۔

سجاد میر نے کہا کہ اگر جماعت اسلامی نہ ہوتی اور مولانا مودودی نہ ہوتے تو آج اسلامیان برصغیر ایسے نہ ہوتے ان کی فکر اور سوچ نے بر صغیر کے مسلمانوں کی روح کو بدل دیا۔ سید مودودی کا کما ل یہ تھا کہ انہوں نے غلامی کے دور میں دین کے تصور کو اجاگر کیا اور یہ درس دیا کہ مسلمان دین کو انفرادی کے بجائے اجتماعی طور پر سمجھیں مولانا مودودی  نے یہ اجتماعی شعور دیا کہ دین اور دنیا اور سیاست و دین الگ الگ نہیں ہیں ۔

پاکستان کی فکر اور تصور دینے میں جتنا کردار اقبال کا تھا اتنا ہی مولانا مودودی کا تھا ۔جب اقبال اس دور سے چلے گئے تو اس روح کو زندہ کرنے کے لیے مرد قلندر مودودی ہی تھے ۔پاکستان کے اندر اسلامی فکر کو سید مودودی نے ہی پروان چڑھایا اور آج کوئی بھی ملک کے اندر اسلام کے خلاف برملا کچھ کہنے کی ہمت اور طاقت نہیں رکھتا ۔جماعت اسلامی ہی وہ گروہ ہے جو ملک میں تبدیلی لانے والا ہے اور وہ لوگ مبارک باد کے مستحق ہیں جو اس سے وابستہ ہیں۔

شاہنواز فاروقی نے کہا کہ مولانا مودودی نے ایک جانب یہ بتایا کہ حق کیا ہے اورحق کی تفصیل کیا لیکن صرف یہی نہیں بتایا بلکہ یہ بھی بتایا کہ اس دور کا باطل کیا ہے۔انہوں نے شو شلزم ،سیکولر ازم ،سرمایہ داری اور قوم پرستی کی حقیقت سے آگاہ کیا اورلوگوں کو بتایا کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیا ت ہے اور اگر اس پر آج بھی اس کے روح کے مطابق عمل کیا جائے تو یہ 14سوسال پرانے اثرات ہی دکھائے گا ،مولانا نے بتایا کہ اسلام ایک عالمگیر دین ہے اور یہ ہی جماعت اسلامی کی دعوت ہے ،جماعت اسلامی کا ورثہ ایک عالمگیر ورثہ ہے مولانا مودودی کی فکر اور نیت میں اخلاص بہت اہم ہے اسی لیے ان کے عمل میں برکت پیدا ہوئی اور یہ بر کت اللہ تعالیٰ نے ہی عطا کی ،مولانا مودودی کا مرکزی اور محوری نکتہ توحید اور اللہ سے محبت ہے اور اللہ سے محبت اس لیے کی جائے کہ وہ اس کے لائق ہے ،مولانا مودودی نے جو فکری رہنمائی کی ہے اس ہی کی بدولت آج عالم اسلام میں سب سے زیادہ پڑھے جانے اور اپنے اثرات چھوڑنے والے عالم دین ہیں ،جماعت اسلامی اور امت مسلمہ کا گہرا تعلق ہے جماعت اسلامی امت کو ایک جسد واحد کی طرح تصور کر تی ہے ملک کے اندر بھی اس کے اثرات بہت گہرے ہیں اور واضح طور پر دیکھے جا سکتے ہیں ۔

جماعت اسلامی کے اسسٹنٹ سیکریٹری عبد الرشید بیگ نے اپنے تاثرات میں کہا کہ یکم نومبر 1971کو میں نے جماعت اسلامی کی رکنیت کا حلف اُٹھا یا ۔مولانا مودودی کی کتاب سے متاثر ہو کر جماعت اسلامی کی دعوت کو سمجھا اور شمولیت اختیار کی ،بہت سی ذمہ داریاں ادا کیں اور آج بھی ادا کر رہا ہوں ،تنظیمی طور پر جماعت اسلامی میں ہر دور میں ہر سطح پر استصواب اور انتخاب کا عمل اپنے وقت پر ہمیشہ ہوتے رہے ہیں ۔

جماعت اسلامی کے دیرینہ رکن سعید اختر جن کو جماعت اسلامی کا رکن بنے 48سال کا عر صہ ہو گیا ہے ،نے کہا کہ میں 1965میں جماعت اسلامی سے متاثر ہوا اور سب سے پہلے مولانا مودودی کی کتاب ”خطبات “پڑھی ۔جنوری 1966میں رکنیت کا حلف اُٹھایا اور سید منور حسن نے بھی اسی روز حلف اُٹھا یا تھا ۔ڈاکٹر محمد اقبال کو 60سال سے جماعت اسلامی کے رکن ہیں نے اپنے تاثرات میں کہا کہ میرے بہت سے اساتذہ آزادی کی جدو جہد میں کانگریس کے حلیف تھے ۔

میرے چچا جماعت اسلامی کے تاسیسی ارکان میں شامل ہیں ان ہی کے کردار اور کوششوں سے میں متاثر ہوا اور جماعت اسلامی میں شمولیت اختیار کی ۔دینی مدرسے میں تعلیم حاصل کی تھی لیکن مولانا مودودی نے دین کاجو فہم اور ادراک عطا کیا وہ اس تعلیم سے کہیں زیادہ اور بہتر تھا ۔سید آصف علی جنہوں نے 24سال کی عمر میں 1951میں جماعت اسلامی کی رکنیت کا حلف اُٹھایا تھا نے کہا کہ میں جماعت اسلامی میں شامل ہونے پر اللہ تعالیٰ کا شکر اد اکر تا ہوں ،میں 1948میں پاکستان آیا ۔پاکستان سے مجھے بہت محبت تھی اور یہ ملک جس مقصد کے لیے حاصل کیا گیا تھا جماعت اسلامی اسی کی جدو جہد میں مصروف عمل ہے اور جماعت اسلامی نے ہی زندگی کا مقصد عطا کیا اور زندگی کو ایک نصب العین کے تحت گذارنے کا سبق دیا۔

متعلقہ عنوان :