اسلام آباد میں ہونیوالا ڈرامہ ایک ایجنڈے کے تحت ہے ،پلڑہ کسی کا بھی بھاری رہے عوام کو کچھ نہیں ملے گا،سید منور حسن

بدھ 27 اگست 2014 17:05

حیدرآباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔27اگست۔2014ء) سابق امیر جماعت اسلامی پاکستان سید منور حسن نے کہا ہے کہ اسلام آباد میں جو ڈرامہ اور ناٹک ہو رہا ہے وہ ایک ایجنڈے کے تحت ہے اس میں پلڑہ کسی کا بھی بھاری رہے عوام کو کچھ نہیں ملے گا اگر حالات ابتر ہوتے ہیں اور تیسرا فریق آ جاتا ہے تو ذمہ داری حکومت پر ہی آئے گی حکومت کے پاس وسائل بھی ہیں اور معلومات بھی ہیں اس لئے وہ اس کا حل نکالے، جب جماعت اسلامی قائم کی گئی تو اس وقت کمیونزم اور کیپٹل ازم کی کشمکش عروج پر تھی سید ابوالاعلیٰ مودودی نے ایسے میں ثابت کیا کہ اسلام بھی ایک ہمہ گیر نظام ہے جو زندگی کے ہر شعبے کے مسائل حل کرنے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے۔

وہ جماعت اسلامی ضلع حیدرآباد کے زیراہتمام جماعت اسلامی پاکستان کے 74ویں یوم تاسیس کی تقریب سے خطاب اور میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کر رہے تھے جو مرکز تبلیغ اسلام میں منعقد ہوئی جس سے امیر جماعت اسلامی ضلع حیدرآباد شیخ شوکت علی، طاہر مجید نے بھی خطاب کیا جبکہ جماعت اسلامی کے صوبائی ڈپٹی سیکریٹری عبدالوحید قریشی، سابق امیر جماعت اسلامی حیدرآباد مشتاق احمد خان اور دیگر رہنما بھی موجود تھے۔

(جاری ہے)

اس سوال پر کہ جب دھرنا دینے والے رہنماؤں میں سے ایک کفن لہرا رہا ہے اور دوسرا کہہ رہا ہے کہ اگر استعفیٰ نہ ملا تو اس کی لاش جائے گی کیا ایسی صورتحال میں وزیراعظم نوازشریف کو استعفیٰ دے دینا چائیے سید منور حسن نے کہا کہ میں نے تو اپنے خطاب میں اسلام آباد میں ہونے والے ڈرامے اور ناٹک کی بات کی ہے حکومت کے پاس وسائل بھی ہیں اور یقینا سول اور فوج کی انٹیلیجنس ایجنسیوں کے ذریعے معلومات بھی ہیں اس لئے وہ بہتر پوزیشن میں ہیں کہ ساری صورتحال سے نمٹ سکے اور بحران کا حل نکال سکے، ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ ہم نے عام انتخابات کے بعد ہی نشاندہی کی تھی کہ یہ پہلا موقع ہے کہ ہارنے والے ہی نہیں بلکہ جیتنے والے بھی الزام لگا رہے ہیں کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے ہماری تو قومی اسمبلی میں صرف 4 سیٹیں آئی تھیں لیکن اب اتنا عرصہ بعد جو لوگ دھاندلی کا نعرہ لگا کر میدان میں نکلے ہیں وہ عوام کو بتائیں اور مطمئن کریں کہ اب نئی بات کیا ہوئی ہے تاہم یہ مسلمہ ہے کہ انتخابات کا فائدہ عوام کو نہیں پہنچ رہا ہے، اسلام آباد کے ڈرامے کا اسکرپٹ کس نے لکھا ہے اس سوال پر سید منور حسن نے کہا کہ وہ تو روز سامنے ہوتا ہے اور دھمکیاں دیتا ہے، کیا انقلاب ووٹ کے ذریعے ہی آ سکتا ہے یا کوئی اور بھی راستہ اختیار کیا جا سکتا ہے اس سوال پر سید منور حسن نے کہا کہ آپ سوالات تو کر رہے ہیں لیکن آپ کا میڈیا ان کو شائع کرے گا اور یہ نشر ہوں گے یا نہیں کیونکہ آپ لوگوں کو اس کی اجازت نہیں ہے ، انہوں نے کہا کہ خوابوں اور مفروضوں کی بات ہم نہیں کرتے تاہم صحیح ہے کہ ووٹ کے بارے میں بھی اب سوالات اور اعتراضات ہو رہے ہیں یہ آیا اس سے تبدیلی آ سکتی ہے یا نہیں کیونکہ لوگوں کے پاس ووٹ کی قوت ضرور ہے لیکن جب ووٹ ڈالے کسی ایک کے بیلٹ بکس میں جائیں مگر وہ نکلیں کسی دوسرے کے بکس سے تو پھر ووٹ کا اعتبار کیا رہے گا، انہوں نے کہا کہ کتنی ہی انتخابی اصلاحات کیوں نہ کر لی جائیں جب تک بھتہ خور دہشت گرد زبردستی ووٹ ڈلوانے والوں پر قابو نہیں پایا جائے گا صورتحال میں بہتری کا کوئی امکان نہیں، انہوں نے کہا کہ یہ صحیح ہے کہ ووٹ اب تبدیلی کا مستحکم حوالہ نہیں رہا لیکن جب تک کسی متبادل ذریعے پر سب متفق نہ ہو جائیں تب تک موجودہ ذریعے کو چھوڑ دینا گھاٹے کا سودا ہو گا، انہوں نے کہا کہ انقلاب کو شارٹ کٹ سمجھا جاتا ہے لیکن آپ اسلام آباد کے دھرنے والوں کو دیکھیں انہوں نے دس دس لاکھ لوگ لانے کا اعلان کیا تھا میں بہت رعایت کے ساتھ کہتا ہوں کہ وہ دونوں شائد ایک لاکھ لوگ بھی نہیں لا سکے، سید منور حسن نے اسلام آباد کے دھرنوں کی صورتحال کی وجہ سے شمالی وزیرستان کے آپریشن متاثرین کے نظرانداز ہونے کے بارے میں سوال پر کہا کہ یہ ملین ڈالر کا سوال ہے لیکن پہلے آپ یہ دیکھیں کہ 17 اگست کو غزہ میں فلسطینیوں پر اسرائیل کی دہشت گردی کے خلاف ملین مارچ کراچی میں ہوا لیکن میڈیا نے شائد چند منٹ سے زیادہ اس کا لائیو کوریج نہیں کیا جبکہ وہ اسلام آباد کے دھرنوں کو گھنٹوں لائیو کور کرتے رہے میڈیا کو بھی اپنے کردار کا جائزہ لینا چائیے کہ اس نے اسلام آباد کے دھرنوں کے مقابلے میں غزہ ملین مارچ اور شمالی وزیرستان کے لاکھوں متاثرین کو کیوں نظرانداز کر دیا، انہوں نے کہا کہ شمالی وزیرستان میں کون سا ایسا بیوقوف دہشت گرد اب تک موجود رہا ہو گا اب تو وہاں تمام کاروائی عوام کے خلاف ہی ہو رہی ہے کیونکہ لاکھوں افراد اپنے گھروں سے ہجرت کرنے پر مجبور کر دیئے گئے ہیں اور وہ نہایت اذیت میں وقت گزار رہے ہیں سرکاری کیمپوں میں آپ کو چند ہی متاثرین نظر آئیں گے کیونکہ انہیں اندازہ ہے کہ انہیں بھوکا پیاسا رکھ کر مزید اذیت دی جائے گی، انہوں نے کہا کہ یہ میڈیا کی ذمہ داری ہے کہ وہ متاثرین کے کیمپوں اور علاقوں کا دورہ کرکے حالات کے بارے میں قوم کو آگاہی دے اور اگر ان کو اجازت نہ دی جائے تو اس کی بھی نشاندہی کی جائے، انہوں نے کہا کہ دنیا میں جیٹ طیاروں سے جنگوں کے دوران بمباری صرف دہشت پھیلانے کے لئے کی جاتی ہے یہاں روز یہ اطلاع دی جاتی ہے کہ جیٹ طیاروں نے شمالی وزیرستان میں بمباری کی اور 14 دہشت گرد مارے گئے اس سے پہلے بھی کبھی پکڑے گئے کسی دہشت گرد کا نہ تو نام بتایا جاتا رہا ہے اور نہ ہی مارے جانے والے کی لاش دکھائی جاتی رہی ہے اب بھی یہی ہو رہا ہے کہ کسی مارے جانے والے دہشت گرد کی تصویر بھی میڈیا پر نہیں آ رہی، سید منور حسن نے کہا کہ اسلام آباد میں انقلاب اور آزادی والے ایک ایجنڈے کے تحت لائے گئے ہیں لیکن پھر بھی جو ہزاروں افراد اتنے روز سے وہاں موجود ہیں ان کی قربانی کی قدر کی جانی چائیے لیڈرشپ انہیں کتنا ساتھ لے کر چلتی ہے اور وہ لیڈرشپ کے ساتھ کتنا چلتے ہیں یہ بعد میں پتہ چلے گا کیونکہ اس میں ہر روز نیا عنصر شامل ہو جاتا ہے، انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے ایڈیشنل سیکریٹری افضل خان نے جو انکشافات کئے ہیں وہ بظاہر بہت اہم ہیں لیکن ان کا جواب بھی آنا شروع ہو گیا ہے افضل خان ڈیڑھ سال تک خاموش رہے اور اب وہ اچانک بول پڑے ہیں میں ان کی باتوں کو مشکوک نہیں بنا رہا لیکن اگر افضل خان کو یہ انکشافات کرنے ہی تھے تو انہیں ایک مخصوص چینل پر آنے کے بجائے پریس کانفرنس کرکے قوم کو آگاہ کرنا چائیے تھا تاکہ میڈیا کے سوالات پر شبہات کے جوابات بھی آ جاتے، انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی کے کارکنوں کو ایک طرف کی بات سن کر کسی کا طرفدار نہیں بن جانا چائیے بلکہ پوری صورتحال کا ادراک کرکے رائے قائم کرنی چائیے، سید منور حسن نے کہا کہ قرآن و سنت کی بالادستی کے قیام کے حوالے سے آج کے دور میں کس طرح کام کیا جائے اس حوالے سے سوالات کا جواب سید مودودی کے لٹریچر میں ہمیں ملتا ہے اس لئے یہ جماعت کے کارکنوں کے لئے بڑا موثر ہتھیار ہے، انہوں نے کہا کہ سید مودودی نے ایسے حالات میں جبکہ سوشلزم کمیونزم کی سرمایہ دارانہ نظام سے کشمکش جاری تھی تو ایسے حالات میں سید ابوالاعلیٰ مودودی نے جماعت اسلامی تشکیل دی اور یہ نشاندہی کی کہ ان کے مقابلے میں اسلام بھی ایک ایسا دین ہے جو زندگی کے ہر شعبے پر محیط ہے اور زندگی کے تمام مسائل حل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، انہوں نے کہا کہ جب ہندوؤں نے شدھی کی تحریک کے ذریعے مسلمانوں کو ہندو بنانے کی کوششیں شروع کیں تو سید مودودی نے واضع کیا کہ مسلمان ایک واضع فکروفلسفہ اور نظریہ رکھنے والی داعی قوم ہے اس کے خلاف شدھی کی تحریک چلنے کا مطلب یہ ہے کہ اس نے اپنے مشن کو چھوڑ دیا ہے، انہوں نے کہا کہ سید مودودی نے غلبہ دین کے مشن کو پھر مسلمانوں میں زندہ کیا اور ان میں احساس پیدا کیا کہ انہیں باطل کا غلام نہیں بننا چاہئے۔

متعلقہ عنوان :