معاملہ شاہراہ دستور کا نہیں دستورکا ہے، آج اگرمظاہرین کے مطالبے پر حکومت ختم ہوگئی تو مستقبل میں کوئی دو لاکھ کا مجمع لاکر تختہ الٹ دیگا ، سپریم کورٹ

بدھ 27 اگست 2014 13:46

معاملہ شاہراہ دستور کا نہیں دستورکا ہے، آج اگرمظاہرین کے مطالبے پر ..

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔27اگست۔2014ء) سپریم کورٹ نے رجسٹرار، اٹارنی جنرل ، سپریم کورٹ بار کے صدر،عوامی تحریک اور تحریک انصاف کے وکلاء کو شاہراہ دستورکو ایک سائیڈ سے خالی کرنے کیلئے سڑک کا دورہ کرکے جائزہ رپورٹ کل جمعرات تک جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ معاملہ شاہراہ دستور کا نہیں دستورکا ہے، شاہراہ دستور کھولنے کا معاملہ ثانوی ہے ،عدالت اصل مقدمہ پر توجہ دیگی، عدالت اپنی طاقت سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں کسی کے آنے یا جانے سے ادارے کمزور نہیں ہوتے،آج اگرمظاہرین کے مطالبے پر حکومت ختم ہوگئی تو مستقبل میں کوئی دو لاکھ کا مجمع لے کر آجائیگا اور حکومت کا تختہ الٹ دیا جائیگا۔

احتجاج کو اس سطح تک رکھا جائے کہ دوسروں کے حقوق متاثر نہ ہوں ، خدارا آئین کو بچایا جائے اس کو بچانے کی ہم سب نے قسم کھائی ہے آئندہ نسلوں کیلئے آئین کو بچایا جائے، پاکستان عوامی تحریک کے وکیل نے عدالت کو یقین دہانی کرائی ہے کہ پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ کیساتھ والی شاہراہ دستور کی ایک سائیڈ مکمل طور پر خالی کردینگے۔

(جاری ہے)

عدالت نے تحریک انصاف کے وکیل کی جانب سے انتخابات میں دھاندلی سمیت دیگر مسائل کا ازخود نوٹس لینے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اس ضمن میں پٹیشن دائر کرسکتے ہیں۔

بدھ کو عدالت عظمی میں ممکنہ ماورائے آئین اقدام کیخلاف درخواستوں کی سماعت چیف جسٹس ناصرالملک کی سربراہی میں جسٹس جواد ایس خواجہ ، جسٹس انور ظہیر جمالی ، جسٹس میاں ثاقب نثار اور جسٹس آصف سعید کھوسہ پر مشتمل پانچ رکنی لارجر بنچ نے کی۔یہ درخواستیں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور دیگر بارز کی جانب سے دائرکی گئیں ۔دوران سماعت جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ یہ مقدمہ شاہراہ دستور کا نہیں بلکہ دستور کا ہے ۔

شاہراہ دستور کھولنے کا معاملہ ثانوی ہے درخواست گزاروں کو خدشہ ہے کہ آئین و دستور کو خطرہ ہے گھٹنے کے ماہر نے دماغ کا 4مرتبہ آپریشن کیا ہے اس کو پانچویں آپریشن سے روکا جائے۔عدالت اصل مقدمہ پر توجہ دیگی۔جسٹس میاں ثاقب نثار نے وکلاء رہنماؤں کو مخاطب کرتے ہوئے واضح کیا کہ انہوں نے عدلیہ کو مضبوط بنا دیا ہے اور عدالت اپنی طاقت سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں کسی کے آنے یا جانے سے ادارے کمزور نہیں ہوتے ۔

میاں ثاقب نثار نے فریقین کے وکلاء کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ خدارا آئین کو بچایا جائے اس کو بچانے کی ہم سب نے قسم کھائی ہے آئندہ نسلوں کیلئے آئین کو بچایا جائے۔ جسٹس انور ظہیرجمالی نے کہا کہ آج اگرمظاہرین کے مطالبے پر حکومت ختم ہوگئی تو مستقبل میں کوئی دو لاکھ کا مجمع لے کر آجائیگا اور حکومت کا تختہ الٹ دیا جائیگا۔احتجاج کو اس سطح تک رکھا جائے کہ دوسروں کے حقوق متاثر نہ ہوں۔

مقدمہ کی سماعت شروع ہوئی تواٹارنی جنرل سلمان اسلم نے عدالت کی ہدایت پر گذشتہ سماعت پر جاری عدالتی حکم پڑھا جس کے بعد انہوں نے اپنی جانب سے شاہراہ دستور کھولے جانے بارے رپورٹ پڑھ کر سنائی جس میں کہا گیا ہے کہ دو نوں احتجاج کرنے والی جماعتوں نے شاہراہ دستور اور پریڈایونیوسے اپنے دھرنے کسی متبادل مقام پر منتقل کرنے سے انکار کردیا ہے۔

اٹارنی جنرل نے رپورٹ میں کہا ہے کہ دھرنے کیلئے حکومت کی جانب سے فیض آباد اور سپورٹس کمپلیکس سمیت دیگر متبادل جگہوں کی پیش کش کی گئی تھی تاہم دونوں جماعتوں نے دھرنوں کی جگہ تبدیل کرنے سے انکار کردیا ہے ۔ اٹارنی جنرل نے کہا ہے کہ دونوں جماعتوں کو ان مقامات پر اپنے دھرنے دینے کی بھی تجویز دی گئی جہاں پر ان کو دھرنا دینے کی اجازت دی گئی تھی لیکن دونوں جماعتوں نے وہاں جانے سے بھی انکار کردیا ہے۔

اٹارنی جنرل نے اپنے جواب کیساتھ حکومت کی جانب سے جلسے کیلئے دیئے گئے اجازت نامے کی کاپی بھی لف کی تھی۔اٹارنی جنرل نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ 26اگست کی صبح بھی انہوں نے عمران خان کے وکیل احمد اویس سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھاکہ عمران خان اپنے دھرنے کی جگہ تبدیل کرنے کو تیار نہیں ہیں۔اٹارنی جنرل نے رپورٹ پڑھی تو چیف جسٹس نے کہاکہ آپ نے عدالتی حکم کے مطابق رپورٹ جمع نہیں کرائی ہمار احکم یہ تھا کہ شاہراہ دستور پر آزاد نقل و حرکت ہونی چاہئے ۔

جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ سپریم کورٹ میں تعینات اہلکار کی تین جگہ پر تلاشی لی گئی ہے اس کی تذلیل کی گئی ہم کہہ دیتے ہیں کہ یہ انارکی اور لا قانونیت ہے۔ عوامی تحریک کے وکیل علی ظفر نے عدالتی استفسار پر بتایا کہ مظاہرین اپنی مرضی سے آئے ہیں کہ وہ اپنے ورثا کے قتل کا انصاف چاہپتے ہیں جب تک انصاف نہیں ملے گا وہ یہاں سے نہیں جائیں گے عوامی تحریک نے سڑک پر کوئی رکاوٹ کھڑی نہیں کی، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کا بیان اپنی جگہ لیکن زمینی حقائق الگ ہیں کیا کارکنان لیڈران کے کنٹرول میں نہیں ۔

جسٹس جواد خواجہ نے کہا کہ عوامی تحریک نے جواب میں کہا ہے کہ کارکنان اس کے کنٹرول میں نہیں اور یہ واضح ہو چکا ہے کیونکہ وہ واپس جانے کو تیار نہیں ہجوم ہجوم ہی ہوتا ہے اس پر کسی کا کنٹرول نہیں ہوتا۔ جسٹس جواد ایس خواجہ کا کہنا تھا کہ اگر تحریک انصاف شاہراہ دستور پر دھرنا نہیں دے رہی تو عوامی تحریک کے پاس کیا جواز ہے۔ عوامی تحریک کے جواب سے واضح ہوتا ہے کہ حکومت کے پاس سڑکوں پر کنٹینرز رکھنے کا جواز موجود ہے۔

چیف جسٹس نے وکلاء کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ شاہراہ دستور کو کھلوانے کیلئے سب کو مشترکہ کوشش کرناہوگی۔ پی ٹی آئی کے وکیل حامد خان نے عدالت کو تجویز دی کہ پہلے مرحلے میں شاہراہ دستور کی ایک سائیڈ کھولنے کا حکم دیا جائے جس کے بعد دوسری سائیڈ کے بارے میں فیصلہ کیا جائے۔ جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ احتجاج کرنے والی جماعتیں آئین پر عمل کریں کنٹینرز بھی سڑکوں سے ہٹائے جانے چاہئیں۔

عدالت نے اپنے حکم میں کہا کہ عوامی تحریک نے اپنی رپورٹ میں اعتراف کیا ہے کہ وہ شاہراہ دستور پر موجود ہیں گزشتہ سماعت پر عدالت نے شاہراہ دستور پر نقل و حرکت یقینی بنانے کی ہدایت کی تھی۔عدالت نے اپنے حکم میں اٹارنی جنرل سلمان اسلم بٹ، حامد خان ایڈووکیٹ،علی ظفر ایڈووکیٹ، اطہر بخاری ایڈووکیٹ اور درخواست گذاروں کے وکلاء مل کر شاہراہ دستور کا دورہ کرینگے اوررپورٹ جمع کرائیں گے، رپورٹ جمع ہونے کے بعد عدالت سڑک کی دوسری طرف خالی کئے جانے بارے فیصلہ کریگی۔ بعدازاں مقدمہ کی مزید سماعت کل جمعرات تک ملتوی کردی گئی۔

متعلقہ عنوان :