وزیراعظم نواز شریف سے ایم کیو ایم کے وفد کی ملاقات

بدھ 27 اگست 2014 13:36

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔27اگست۔2014ء) وزیراعظم نواز شریف سے ایم کیو ایم کے وفد نے ملا قا ت کی جس میں ملکی سیا سی صورتحا ل سمیت اہم امو ر پر تبا دلہ خیا ل کیا گیا جبکہ متحدہ کے وفد نے وزیر اعظم کو مشورہ دیا کہ وہ دھرنے دینے والوں کے سا تھ مذا کرا تی عمل کا را ستہ اختیا ر کر یں اور یہ نہ دیکھا جائے کہ کیا روایت قائم ہوگی۔اسلام آباد میں وزیراعظم نواز شریف سے ملا قا ت کر نے والے وفد میں خالد مقبول صدیقی، فاروق ستار،بابر غوری اور حیدر عباس رضوی شامل تھے جبکہ وزیر اعظم کی معاونت کیلئے وزیر دفاع خواجہ آصف ، وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور وزیر اطلاعات پرویز رشید بھی ملاقات میں موجودتھے وزیراعظم سے ملاقات کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر فاروق ستار کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے کوشش کی ہے کہ اس وقت ملک جس بحران میں ہے اس کا حل نکالا جائے۔

(جاری ہے)

وہ احتجاج کرنے والی جماعتوں اور حکومت سے مسلسل اپیل کررہے ہیں کہ بات چیت کے ذریعے مسئلے کا حل نکالیں، اسی غرض سے ہم نے پاکستان عوامی تحریک، چوہدری شجاعت حسین، شیخ رشیداحمد، جاوید ہاشمی، مولانا فضل الرحمان ، خورشید شاہ اور وفاقی وزرا سے ملاقات کی۔ وزیراعظم سے ملاقات کے دوران ہم نے انہیں ان تمام رہنماوٴں سے ہونے والی بات چیت سے آگاہ کیا اور وزیراعظم نے بھی ہماری باتوں کو کھلے دل سے سنا، انہیں محسوس ہوا کہ وہ بھی پورے اخلاص کے ساتھ اس مسئلے کو حل کرنا چاہتے ہیں۔

فاروق ستار کا کہنا تھا کہ اب بھی گنجائش ہے اور تھوڑی کوشش کی جائے تو مسئلے کا حل نکالا جاسکتا ہے، حکومت بڑی فریق ہے اور اسے بڑے دل کا مظاہرہ کرناہوگا، ہم ریاست کو مضبوط اور مستحکم دیکھنا چاہتے ہیں، آج کا دن انتہائی اہم ہے، انا کو ایک جانب رکھ کر دھرنے دینے والوں کو کسی بھی صورت منایا جائے۔ ہم نے کہا ہے کہ حکومت ایسی پیشکش سامنیرکھے کہ احتجاج کرنے والوں کی ضرورت پوری ہوجائے۔

پی ٹی آئی سے مذاکرات ہوئے ہیں اور عوامی تحریک سے بھی ہونے چاہئیں، اگر حکومت کا اعلیٰ سطح کا وفد ڈاکٹر طاہرالقادری سے ملاقات کرے تو اس بات کی گنجائش ہے کہ معاملات درست سمت میں گامزن ہوجائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہم کوشش کررہے ہیں کہ سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ ہم ریاست کو مضبوط اور مستحکم دیکھنا چاہتے ہیں، ہم نے وزیراعظم کو مشورہ دیا کہ اس وقت یہ نہ دیکھا جائے کہ کیا روایت قائم ہوگی۔

مطالبوں کی نوعیت اور اس کے طریقہ کار پر بات کرنا ایک الگ بحث ہے لیکن ہمیں ملک کے وسیع تر مفاد اور اس کے استحکام کے لئے سوچنا چاہیئے۔ انتہاپسندی اور دہشتگردی بہت بڑا چیلنج ہے اور اس سلسلے میں پاک فوج کا آپریشن ضرب عضب بھی کیا جارہا ہے۔ ایسی صورت حال میں ملک کو مستحکم کرنا ضروری ہے