Live Updates

سراج الحق کی اسپیکر قومی اسمبلی سے ملاقات ،پی ٹی آئی کے استعفے قبول نہ کرنے کی درخواست ،تکنیکی بنیادوں پر دیکھنے کی بجائے موجودہ صورتحال کے تناظر میں دیکھا جائے ،استعفے قبول کئے گئے تومشکلات میں مزید اضافہ ہوگا، پاکستان کو آئین نے جوڑ رکھا ہے ،خدانخواستہ پاکستان آئین سے محروم ہو گیا تو کوئی طاقت دوبارہ اکٹھا نہیں کر سکے گی ،بحران کے حل کیلئے کسی بڑی شخصیت کو کوہ ہمالیہ کی چوٹی تک بھی جہاز یا پیدل بھی جانا پڑے تو جانا چاہیے ‘ سراج الحق،استعفے آنے کے بعد انکی تصدیق کا مرحلہ ہوتا ہے ،میری مجبوری ہے اس معاملے کو بالکل ہی موخر نہیں کر سکتا،جمہوریت کی خاطر سیاسی رہنماؤں کی مشاورت سے ایک دو روز کے لئے موخر کیا جا سکتا ہے ‘ سردار ایاز صادق ، امیر جماعت اسلامی کی قیادت میں وفد کی سردار ایاز صادق سے انکی رہائشگاہ پر ملاقات ،موجودہ سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا

اتوار 24 اگست 2014 14:27

سراج الحق کی اسپیکر قومی اسمبلی سے ملاقات ،پی ٹی آئی کے استعفے قبول ..

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔24اگست۔2014ء) جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کی قیادت میں وفد نے اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق سے انکی رہائشگاہ پر ملاقات کی جس میں ملک کی موجودہ صورتحال خصوصاً تحریک انصاف کے اراکین قومی اسمبلی کی طرف سے دئیے جانے والے استعفوں کے بارے میں تبادلہ خیال کیا گیا ، جماعت اسلامی کے وفد نے اسپیکر قومی اسمبلی سے درخواست کی ہے کہ موجودہ بحران کے پر امن حل کیلئے استعفوں کی منظوری کے معاملے کو تکنیکی بنیادوں پر دیکھنے کی بجائے زمینی حقائق اور موجودہ صورتحال کے تناظر میں دیکھا جائے ۔

امیر جماعت اسلامی سراج الحق کی قیادت میں پنجاب کے امیر ڈاکٹر وسیم اختر اور امیر العظیم نے اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق سے انکی رہائشگاہ ظفر علی روڈ پر ان سے تفصیلی ملاقات کی ۔

(جاری ہے)

ملاقات کے بعد سراج الحق نے سردار ایاق صادق کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے حاضر ہونے کا واحد مقصد پی ٹی آئی کی طرف سے جمع کرائے گئے استعفوں پر بات کرنا تھا کیونکہ اگر یہ استعفے منظور ہو جاتے ہیں تو اس سے قومی بحران حل کرنے کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا اور سیاسی قوتوں کے درمیان فاصلے بڑھیں گے ۔

انہوں نے کہا کہ جیسے ہی اسمبلی سیکرٹریٹ میں استعفے وصول کئے جاتے ہیں قاعدے اور ضابطے کے مطابق آئین کی دفعہ 224 کی شق 4کے مطابق ساٹھ روز میں الیکشن کا دوبارہ انعقاد ضرور ی ہو جاتا ہے ہم نے اس لئے دوسری سیاسی جماعتوں سے مشاورت کی ہے ، پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری بھی آئے تھے اور قائد حز ب اختلاف سے بات کی اور اس پر اتفاق رائے ہے کہ یہ استعفے وصول نہ کئے جائیں اور ہمیں کچھ وقت ملے تاکہ مرکزی حکومت اور دھرنوں کی قیادت کرنے والوں کے درمیان صلح اور ثالثی کے لئے اور قوم کو اس بحران سے نکالنے کے لئے کچھ وقت ملے ۔

دونوں فریقین سے رابطہ ہے اور مجھے خوشی ہے کہ دونوں نے یقین دلایا ہے کہ وہ آئین پر عملدرآمد کو یقینی بنا رہے ہیں ،دونوں جمہوریت اور عوام کی بھلائی کی بات کرتے ہیں ریلیف کی بات کرتے ہیں یہ مشترکہ چیزیں ہیں جسکے دونوں جانب سے سگنلز مل رہے ہیں ۔اس لئے جب دونوں آئین کی پاسداری کی بات او رجمہوریت کے استحکام اور عوام کی بھلائی کی بات کرتے ہیں تو اس سے ہمیں ایک امید اور سہارا ملتا ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ دونوں کو ایک با عزت نجات کے راستے پر ڈالنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔

میں نے سردار ایاز صادق سے درخواست کی ہے کہ وہ استعفوں کو تکنیکی انداز میں لینے کی بجائے زمینی حقائق اور موجودہ صورتحال کے تناظر میں لیں اور ہمیں وقت دیدیں تاکہ ہم اس مسئلے کو مستقل بنیادوں پر حل کرنے میں کامیاب ہو جائیں ۔ خوشی ہے کہ گزشتہ دس بار ہ دنوں میں سیاسی رہنماؤں اور سیاست سے باہر مختلف کمیونٹی کے رہنماؤں سے ملاقات ہو رہی ہے اوراٹھارہ کروڑ عوام کی خواہش ہے کہ مذاکرات کے ذریعے بحران حل ہو جائے ۔

اسی طرح دوست ملک چین کی درخواست ہے کہ اس بحران کو پر امن طور پر حل کیا جائے اور اسی طرح دیگر خیر خواہ قوتوں اور اورر سیز پاکستانی جو اپنا پسینہ بہا کر زرد مبادلہ پاکستان کو بھیج رہے ہیں کہ ایٹمی صلاحیت کے ملک پاکستان کا دارالخلافہ میں موجود بحران کو ختم ہونا چاہیے ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کا دارالحکومت چودہ اگست سے محاصرے میں ہے اور زندگی بالکل رک گئی ہے ۔

معیشت کا پہیہ الٹا گھوم رہا ہے اور اب تک 700بلین سے زائد کا نقصان ہو چکا ہے اسکی ذمہ داری کسی ایک فریق پر ڈالنے کی بجائے دونوں فریقین سے اپیل کرتے ہیں کہ قوم کی حالت پر رحم کرکے دونوں فریق انا کے خول سے باہر آ جائیں اور ایک با عزت راستہ اختیار کرنے کی کوشش کریں ۔میں سمجھتا ہوں کہ اب تک جتنے بھی کوششیں کی گئی ہیں انکے نتیجے میں دونوں مذاکرات کی میز پر آ گئے ۔

میں دھرنوں کی قیادت کرنے والوں کو بھی سراہتا ہوں کہ انہوں نے چودہ اگست سے آج کے دن تک اپنے جلوس کو پر امن رکھا ہوا ہے اور اس سے باہر کی دنیا کی ایک خوبصورت پیغام ملا ہے کہ پاکستان میں اتنی بڑی تعدا میں عوام کئی کئی روز اکٹھے بیٹھ جاتے ہیں اور ایک شیشہ نہیں ٹوٹا اور ایک مونگ پھلی کو بھی نقصان نہیں پہنچا اور یہ ایک مثبت کلچر فروغ پا رہا ہے ۔

اگر ہم اس پر دھرنے کے شرکاء کے صبر کو بھی نہ سراہیں تو ہم بغل سے کام لے رہیں ہو ں گے ۔اسکے ساتھ مرکزی حکومت نے جس حکمت اور صبر سے کام لیا ہے اور پولیس نے نہ گولی چلائی ہے اور نہ لاٹھیاں چلائی یہ بھی قابل تعریف ہے ۔ انہوں نے کہا کہ مذاکرات اٹھارہ کروڑ عوام کی آواز ہیں اور وہ اس پر زور دے رہے ہیں ۔ فریقین کو مشورہ ہے کہ وہ ایجی ٹیشن سے گریز کریں کیونکہ ایسا نہ ہو کہ جمہوریت اور آئین کا خاتمہ ہو جائے ۔

پاکستان کو آئین نے جوڑ رکھا ہے اور اسکی وجہ سے مختلف قومیتیں ایک ہیں اگر خدانخواستہ پاکستان آئین سے محروم ہو گیا تو کوئی طاقت ایسی نہیں جو انہیں دوبارہ اکٹھا کر سکے ۔ ہم سب کو آئین کی روشنی میں معاملات طے کرنے ہیں ۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ کسی نے آئین سے بغاورت کا اعلان نہیں کیا ۔ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ اور دیگر جماعتوں کے رہنماؤں نے بھی رابطے کئے ہیں او رانکی خواہش ہے کہ پی ٹی آئی کے ممبران کے استعفوں کو قبول نہ کریا جائے کیونکہ اس سے سیاسی بحران میں مزید اضافہ ہو جائے گا ۔

انہوں نے کہا کہ میں دل کی بات کروں تو اگر آئین اور جمہوریت نہ رہا تو اس سے بڑے سیاسی لوگوں کی صحت پر تو کوئی فرق نہیں پڑے گا لیکن اس غریب آدمی کو ضرور مسئلہ ہوگا جو روز کماتا اور اپنے بچوں کوکھلاتا ہے اس لئے سب کو مل کر غریب آدمی کے مسئلہ پر توجہ دینی چاہیے ۔ خدا کا شکر ہے کہ بد امنی کچھ ختم ہوئی ہے لیکن پھر بھی خطرات موجود ہیں ۔ بین الاقوامی طاقتیں چاہتی ہیں کہ ہم عراق او رشام کی طرح کمزور ہو جائیں اور یہاں بھی آپس کی لڑائیاں شروع ہو جائیں لیکن ہم نے پاکستان کو نہ عراق اور نہ ہی شام بنانا ہے بلکہ اسے روشن اور مستحکم پاکستان بنانا ہے ۔

میڈیا بھی اس خیر میں تعاو ن کرے ۔انہوں نے کہا کہ موجودہ حالات میں قوم کو اس بخار سے نکالنے کے لئے سیاسی زعماء نے دانشمندی کا مظاہرہ کیا ہے لیکن ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ یہ مسئلہ چوراہے اور بیچ راستے چھوڑ دیا جائے بلکہ اسے نتیجہ خیز بنایا جائے ۔ یہ دو فوجوں کی نہیں بلکہ دو تحریکوں کی لڑائی ہے جب ہم وزیر اعظم کی بات کرتے ہیں تو وہ اکیلے نہیں وہ مسلم لیگ ہیں اور اسی طرحپی ٹی آئی اور عوامی تحریک بھی ایک سیاسی قوت ہے ۔

جوبھی آئین اور جمہوریت کے لئے پیچھے ہٹا اسکی پاکستانیوں کی نگاہ میں عزت مزید بڑھے گی لیکن جو آگے بڑھ کر ٹکراؤ کی صورتحال پیدا کرے گا اسکی عزت میں کمی آئے گی ۔ جو لو گ چودہ اگست سے شدید بارشوں اور طوفان کے باوجود دھرنوں میں بیٹھے رے ہم چاہتے ہیں کہ وہ بھی گھروں کو پہنچیں لیکن عزت کا راستہ نکلنا چاہیے کیونکہ اگر آج وہ ناکام ہو گئے تو یہ جمہوری جدوجہد کی ناکامی ہو گی کیونکہ پھر کوئی جلسہ اور جلوس نہیں کرے گا ہم چاہتے ہیں کہ سب کو عزت و وقار ملے اور آئین کا بول بالا ہو ۔

ا نہوں نے وزیر اعظم نواز شریف کے دھرنے والوں کے پاس جانے کے سوال کے جواب میں کہا کہ شہباز شریف نے ملاقات میں کہا تھا کہ آپ مجھے جہاں لیجانا چاہتے ہیں میں چلنے کو تیار ہوں اور میرے خیال میں آنے جانے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ یہ ہماری ثقافت کا حصہ ہے ۔ اگر بحران کے حل کے لئے کسی بھی بڑی شخصیت کو کوہ ہمالیہ کی چوٹی تک بھی جہاز یا پیدل بھی جانا پڑے تو جانا چاہیے ۔

سردار ایاز صادق نے کہا کہ جماعت اسلامی کاوفد میرے پاس آیا ہے اسی طرح خورشید شاہ نے بھی فون کیا ہے کہ پی ٹی آئی کے استعفوں کے معاملے پر جلد بازی نہ دکھائی جائے ۔ میں جب جمعہ کے روز لاہور کے لئے روانہ ہوا تو مجھے بتایا گیا کہ پی ٹی آئی کے دوست آئے ہیں جسکے بعد میں نے سیکرٹری اسمبلی کو فون کر کے وہاں پہنچنے کی ہدایت کیا ور میری شاہ محمود قریشی سے بھی بات ہوئی اور میں نے انہیں بتایا کہ پیر کو واپس آؤں گا تو بات ہو گی ۔

میں نے بھی ان سے التجا کی کہ وہ قومی اسمبلی میں اپنی بھرپور آواز اٹھاتے ہوئے اچھے لگتے ہیں اور استعفے دینے کی بجائے قومی اسمبلی کا حصہ بنیں ۔ انہوں نے کہا کہ میں اسپیکر بننے کے بعد مکمل غیر جانبدار ہوں اور ریکارڈ اس کا گواہ ہے اور کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں کسی کا ساتھ دے رہا ہوں ،آئین ‘ جمہوریت اور پارلیمنٹ کی بالا دستی کے لئے مجھ سے جو بھی ہو سکا کروں گا ۔

انہوں نے کہا کہ استعفے آنے کے بعد انکی تصدیق کا مرحلہ ہوتا ہے میں پیر کے روز انہیں کھول کر دیکھوں گا اور اسکے بعد اس پر کئے جانے والے دستخطوں کی تصدیق اور دیگر مراحل ہونے ہیں اس کے لئے اراکین کو خط بھی لکھا جا سکتا ہے اور ٹیلیفون کر کے بھی بلایا جا سکتا ہے ۔میری مجبوری ہو گی کہ شاید میں اس معاملے کو بالکل ہی موخر کر دوں لیکن جمہوریت کی خاطر سیاسی رہنماؤں کی مشاورت سے ایک دو روز کے لئے موخر کیا جا سکتا ہے اور مجھے امید ہے کہ جب میں پیر کے روز جاؤں گاتو اس روز شام تک یہ معاملہ خوش اسلوبی سے پایہ تکمیل تک پہنچ جائے گا ۔

Live پاکستان تحریک انصاف سے متعلق تازہ ترین معلومات