جج جاکر لوگوں کو شاہراہ دستور سے نہیں ہٹا سکتے یہ کام انتظامیہ کا ہے‘ حکومت کہاں ہے وہ اپنا فرض کیوں ادا نہیں کررہی ،سپریم کورٹ

جمعہ 22 اگست 2014 21:44

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔22اگست۔2014ء) سپریم کورٹ نے ماورائے آئین اقدام کے حوالے سے دائر درخواستوں کی سماعت 25 اگست تک ملتوی کرتے ہوئے درخواست گزاروں کی جانب سے دھرنے ختم کرنے کیخلاف درخواست ایک بار پھر مسترد کردی اور کہا ہے کہ یہ ایک انتظامی معاملہ ہے اور انتظامی معاملات کی ذمہ دار حکومت ہے جبکہ عدالت نے درخواست گزاروں کے اعتراضات پر عوامی تحریک سے تفصیلی جواب چوبیس گھنٹوں میں طلب کیا ہے‘ تحریک انصاف اور عوامی تحریک نے اپنے اپنے جوابات سپریم کورٹ میں جمع کرائے ہیں۔

تحریک انصاف نے کہا ہے کہ ان کے کسی اقدام سے ماورائے آئین اقدام کا کوئی خطرہ نہیں۔ وہ پرامن ہیں‘ پرامن رہیں گے۔ کنٹینر ہٹاکر عوامی مشکلات ختم کی جائیں جبکہ عوامی تحریک نے اپنے جواب میں عدالتی اختیار کو چیلنج کیا ہے اور کہا ہے کہ عدالت کو سیاسی معاملات میں مداخلت کا اختیار نہیں۔

(جاری ہے)

چیف جسٹس ناصرالملک نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ایمرجنسی کے حوالے سے اعتزاز احسن کی درخواست پر کوئی حکم جاری نہیں ہوا تھا۔

عدالت نے ایمرجنسی کے نفاذ کے بعد حکم جاری کیا تھا۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہم پانچ جج جاکر لوگوں کو شاہراہ دستور سے نہیں ہٹا سکتے یہ کام انتظامیہ کا ہے‘ حکومت کہاں ہے وہ اپنا فرض کیوں ادا نہیں کررہی۔ جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ حکومت کنٹینر ہٹائے اور مظاہرین شاہراہ دستور خالی کردیں۔ اپنے حقوق کی بجاء آوری میں دوسروں کے حقوق کی خلاف ورزی نہ کی جائے‘ جسٹس انور ظہیر جمالی نے ریمارکس دئیے کہ مجھے اور ایک جج کو ایک کلومیٹر پیدل چل کر گھر جانا پڑا۔

جمعہ کوچیف جسٹس ناصرالملک کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ نے کیس کی سماعت کی تو پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے مفصل جبکہ عوامی تحریک کی جانب سے ابتدائی جواب داخل کروایا گیا۔ عمران خان کی جانب سے حامد خان ایڈووکیٹ نے تحریری جواب میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ تحریک انصاف آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتی ہے‘ کارکنان کسی سرکاری عمارت میں نہ تو داخل ہوں گے اور نہ ہی انہیں نقصان پہنچائیں گے۔

تحریک انصاف یقین دلاتی ہے کہ کوئی ایسا اقدام نہیں اٹھایا جائے گا کہ جس سے ماورائے آئین اقدام ہونے کا کوئی امکان ہو۔ پی ٹی آئی وضع کردہ اصولوں کی پابندی کرے گی‘ تمام کارکنان پرامن ہیں اور پرامن رہیں گے‘ عمران خان قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتے ہیں‘ احتجاج کرنا ہر شہری کا حق ہے اور یہ دھرنے آرٹیکل 4‘ 9‘ 15 اور 16 کے تحت دئیے جاسکتے ہیں۔

شہریوں کی نقل و حرکت میں رکاوٹ کنٹینرز ہیں انہیں ہٹایا جائے‘ شہریوں کو کھانے پینے کی اشیاء فراہم نہیں ہونے دی جارہیں‘ حکومت جان بوجھ کر خوف کا ماحول پیدا کررہی ہے‘ عدالت سے استدعاء کی گئی ہے کہ شہریوں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم نہ کیا جائے جبکہ عوامی تحریک کی جانب سے بیرسٹر علی ظفر ایڈووکیٹ نے جواب داخل کراتے ہوئے کہا کہ عوامی تحریک ایک پرامن جماعت ہے۔

وہ انصاف کیلئے سڑکوں پر نکلی ہے۔ جو بھی رکاوٹیں ہیں وہ حکومت کی جانب سے ہیں۔ دھرنے سیاسی معاملہ ہیں مگر قانونی معاملہ نہیں۔ عوامی تحریک نے مسلم لیگ (ن) کی طرح سپریم کورٹ پر حملہ نہیں کیا۔ دھرنوں کی اجازت قانون دیتا ہے اس پر جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ لوگوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔ بیشک احتجاج آپ کا آئینی حق ہے‘ کسی اور جگہ منتقل ہوکر بیشک لمبے عرصے تک دھرنا دیتے رہیں ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔

جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ عدالت کا دروازہ شاہراہ دستور پر کھلتا ہے ہمیں متبادل راستے سے آنا پڑا۔ اس دوران درخواست گزاروں کے وکلاء نے عدالت سے استدعاء کی کہ شاہراہ دستور سے دھرنوں کو ختم کرنے کے احکامات جاری کئے جائیں۔جس پر جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ آپ چاہتے ہیں کہ ہم پانچ جج جائیں اور مظاہرین کو شاہراہ دستور سے اٹھائیں۔

مظاہرین کو اٹھانے کا کام انتظامیہ کا ہے اس پر احسن الدین ایڈووکیٹ نے کہا کہ سخت تقاریر کی جارہی ہیں جس کی وجہ سے معاملات اور بھی خراب ہوسکتے ہیں جس پر جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ ہم کسی کو تقاریر کرنے سے نہیں روک سکتے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے درخواست گزاروں سے کہا کہ آپ تقاریر کا ریکارڈ عدالت میں جمع کروائیں اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ابھی ہم تحریری جواب طلب کررہے ہیں اس کے بعد کوئی حکم جاری کریں گے اس پر احسن الدین شیخ نے کہا کہ پہلے بھی عدالت نے ایمرجنسی کے معاملے میں بیرسٹر اعتزاز احسن کی درخواست پر حکم جاری کیا تھا۔

اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اعتزاز احسن کی درخواست پر ایسا کوئی حکم جاری نہیں ہوا تھا۔ ایمرجنسی کے نفاذ کے بعد عدالت نے حکم جاری کیا تھا۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہاکہ انتظامیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ قانون کے مطابق عمل کرے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ابھی کسی اضافی دستاویزات کی ضرورت نہیں۔ انہوں نے پاکستان عوامی تحریک سے کہا کہ وہ درخواست گزاروں کے اعتراضات کا پیراوائز مفصل جواب داخل کرائیں۔ اس کے ساتھ ہی عدالت نے کیس کی مزید سماعت 25 اگست تک ملتوی کردی۔۔

متعلقہ عنوان :