Live Updates

آصف زرداری اور عمران خان نواز شریف کی نسبت ہوشیار ہیں،عالمی میڈیا کی پاکستانی سیاستدانوں کی حکمت عملی پر تصویر کشی

جمعرات 21 اگست 2014 20:23

لاہور( اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔21اگست۔2014ء) اگست میں مارچ عالمی میڈیا کے بھی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے اور مختلف زاویوں سے تبصرے بھی جاری ہیں۔ان تبصروں میں کہا گیا ہے کہ آج کل پاکستان میں ایسا سیاسی ماحول دکھائی دے رہا ہے جیسے الیکشن کا موسم ہو،اس بے موسمی سیاسی سرگرمیوں کی اعصابی جنگ میں سیاسی قائدین نئے نئے داؤپیچ سے ایک دوسر ے کو مات دینے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔

عالمی میڈیا نے اس ضمن میں پاکستانی سیاستدانوں کی حکمت عملی کا نقشہ کھینچا ہے جس میں سابق صدر آصف زرداری اور عمران خان کو نواز شریف کی نسبت ہوشیار قرار دیا ہے۔ حالیہ چند سالوں کی سیاسی سر گرمیوں میں چند ایک ایسے سیاستدان سامنے آائے ہیں جنہوں نے روایتی سیاست کو چھوڑ کر نئے رجحان متارف کرائے ہیں جبکہ بیشتر سیاستدان اب بھی پرانے اور روایتی انداز کی سیاست کر رہے ہیں۔

(جاری ہے)

آصف علی زراری نے پانچ سالہ دور اقتدارمیں انتقامی سیاست کو خیر بار کہہ کر مصالحت اور در گزر کی سیاست کو اپنایا اور سکون کے ساتھ پانچ سال صدارت کی اور با عزت رخصت ہوئے۔ انہوں نے تمام مخالف جماعتوں کو اپنے ساتھ ملایا یہاں تک کہ جب ضرورت پڑی تو جس جماعت کو ایک بار قاتل لیگ کہا اس سے بھی نہ صرف ہاتھ ملایا بلکہ چوہدری پرویز الٰہی کوڈپٹی پرائم منسٹر بنا دیا تھا۔

ایم کیو ایم سندھ کی سطح پر پیپلز پارٹی کی سخت مخالف جماعت رہی لیکن ان سے ہاتھ ملایا تو ان کے ساتھ ایسا نباہ کیا کہ الطاف حسین بار بار روٹھ جاتے تو زرداری بار بار انہیں مناتے اور ان کے مطالبات تسلیم کرتے تھے۔ چوہدری شجاعت حسین اور الطاف حسین زرداری کے لیے اس برے وقت میں ساتھ رہے جب علامہ طاہر القادری نے پیپلز پارٹی کے دور میں اسلام آباد میں دھرنا دیا تھا۔

شجاعت حسین ان مذاکرات میں پیش پیش تھے اور سیاست کے ذریعے طاہر القادری کا دھرنا ختم کرانے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ اس کے مقابلے میں اگر نواز شریف کی سیاست دیکھیں تو وہ اب بھی پرانی روایتی سیاست سے چمٹے ہوئے ہیں۔ چوہدری شجاعت حسین ، پرویز الٰہی اور شیخ رشید کو انہوں نے اپنی سیاست کی وجہ سے دشمن بنایا جو ان دنوں طاہر القادری اور عمران خان کے کیمپ میں موجود ہیں۔

تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اگر انہوں نے ممنون حسین کی جگہ کوئی متحرک صدر چنا ہوتا تو آج نواز شریف کو سیاسی حوالے سے فائدہ ہوتا۔ نواز شریف کا انداز سیاست انہیں آج اس جگہ پر لے آآیا ہے کہ ان کے خلاف 12 مہینوں میں ہی لانگ مارچ اور دھرنے شروع ہو گئے ۔ عمران خان کی سیاست آصف زرداری سے مختلف ہے لیکن انہوں نے نئے انداز متعارف کرائے ہیں۔ انہیں اگر ایک دبنگ رہنما کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔

عمران خان نوجوانوں کو سیاست میں لائے اور اسی بنیاد پر آج ان کا ووٹ بینک شاید دیگر جماعتوں سے بڑھ گیا ہے۔ ان کے جلسوں میں موسیقی اور لوگوں کے جوش کو اجاگر کرنے کے لیے انہوں نے جذبے اور جنوں کی سیاست کو پروان چڑھایا۔ یہی پالیسی عمران خان نے کرکٹ کے میدان میں بھی دکھائی اور ان کی جارحانہ قیادت نے انہیں بڑی کامیابیاں دیں۔ زرداری کے مقابلے میں عمران خان نے جارحانہ پالیسی اپنائی۔

آج وہ اکیلے تمام سیاسی جماعتوں کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ انہیں اپنے زور بازو پر یقین ہے اور یہی یقین کی کیفیت انہوں نے اپنے کارکنوں کو بھی دی ہے۔ اس وجہ سے ان کے مخالف بیک فٹ پر چلے جاتے ہیں اور دفاعی پالیسیاں اپنانے پر مجبور ہوتے ہیں۔ اس کی مثال یہی ہے کہ نواز شریف کے بیشتر وزرا ء جو کل تک سخت بیان دے رہے تھے آج موم ہو چکے ہیں ۔

Live عمران خان سے متعلق تازہ ترین معلومات