22اگست کو ”یومِ حمایت طاہرالقادری“ منایا جائے گا،30سیاسی و مذہبی جماعتوں کا مشترکہ اعلامیہ

جمعرات 21 اگست 2014 18:26

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔21اگست۔2014ء) ڈاکٹر طاہرالقادری کے آئینی و جمہوری مطالبات تسلیم کرتے ہوئے اسمبلیاں تحلیل کر کے جمہوری اصلاحات کے لیے قومی حکومت قائم کی جائے۔ وزیراعظم سیاسی بحران کے خاتمے کے لیے فی الفور استعفیٰ دیں۔ انقلابی دھرنے کے خلاف طاقت کا استعمال برداشت نہیں کیا جائے گا۔ جمعتہ المبارک 22 اگست کو ملک بھر میں ”یومِ حمایت طاہرالقادری“ منایا جائے گا اور جمعہ کے اجتماعات میں انقلاب مارچ کے مطالبات کے حق میں قراردادیں منظور کی جائیں گی اور علمائے کرام طاہرالقادری کے عوامی ایجنڈے کو خطباتِ جمعہ کا موضوع بنائیں گے۔

عدالتی حکم کے مطابق سانحہٴ لاہور پر عوامی تحریک کی ایف آئی آر فی الفور درج کی جائے اور ایف آئی آر میں نامزد کیے گئے 30 افراد کو فی الفور گرفتار کر کے قانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔

(جاری ہے)

اس بات کا اعلان سنی اتحاد کونسل کے میڈیا سیل کی طرف سے جاری کیے گئے 30 سے زائد سیاسی و مذہبی جماعتوں کے متفقہ مشترکہ اعلامیہ میں کیا گیا ہے۔ اعلامیہ میں مزید کہا گیا ہے کہ قوم کی اکثریت نظام کی تبدیلی اور انقلاب کے حق میں ہے۔

انقلاب و آزادی مارچ کے لاکھوں شرکاء نے حکومت کے خلاف عدم اعتماد کا اظہار کر دیا ہے۔ اس لیے اب دھاندلی کی پیداوار ناجائز حکومت کو اقتدار میں رہنے کا کوئی آئینی و قانونی حق نہیں ہے۔ مطالبات تسلیم ہونے تک انقلابی دھرنا جاری رہے گا۔ انقلابی دھرنے کے لاکھوں شرکاء نے عزم، حوصلے اور استقامت کی نئی مثال قائم کی ہے۔ انقلاب کی جدوجہد دھن، دھونس اور دھاندلی پر مبنی جعلی جمہوریت کو ختم کر کے ملک میں حقیقی جمہوریت کے لیے کی جا رہی ہے۔

نوازشریف نے استعفیٰ نہ دیا تو ملک کے حالات انتہائی سنگین ہو سکتے ہیں جن کی ذمہ داری حکومت پر عائد ہو گی۔ حکومت کے خلاف عملاً بغاوت ہو چکی ہے۔ قاتل حکمرانوں کو تحفظ دینے والی فراڈ جمہوریت کو نہیں مانتے۔ لاکھوں پاکستانی اسلام آباد پہنچ کر نواز شریف کی حکومت کو چیلنج کر رہے ہیں۔ موجودہ نظام اشرافیہ کے مفادات کا محافظ ہے۔ انقلاب مارچ کے لاکھوں شرکاء نے 6-7 روز سے امن پسندی کا ثبوت دیا ہے۔

حکومت کے خلاف عوام کی نفرت خطرناک حد کو چھو رہی ہے۔ نوازشریف حکومت قائم رہی تو جمہوریت قائم نہیں رہے گی۔ اعلامیہ جاری کرنے والوں میں پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین، پاکستان عوامی تحریک کے صدر حریق حق عباسی، سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین صاحبزادہ حامد رضا، مجلس وحدت المسلمین کے سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس، آل پاکستان مسلم لیگ کے مرکزی سیکرٹری جنرل ڈاکٹر امجد، تحریک صوبہ ہزارہ کے سربراہ بابا حیدر زمان، پاکستان فلاح پارٹی کے مرکزی صدر قاضی عتیق الرحمن، جے یو پی (نیازی) کے سربراہ پیر سیّد معصوم حسین نقوی، نیشنل مشائخ کونسل کے صدر خواجہ غلام قطب الدین فریدی، مرکزی جمعیت علمائے پاکستان کے سیکرٹری جنرل پیر سیّد محمد اقبال شاہ، تحریک مشائخ پاکستان کے صدر پیر میاں غلام مصطفی، سرائیکی لیگ کے راہنما خالد مختار، انجمن طلبائے اسلام کے مرکزی صدر ارحم سلیم قادری، سنی علماء بورڈ کے صدر علامہ ارشاد فخری، تنظیم مشائخ عظام کے سربراہ پیر صوفی مسعود احمد، محاذ اسلامی کے رانا حفیظ احمد، دفاعِ اسلام محاذ کے صدر مفتی محمد رمضان جامی، مرکزی مجلس چشتیہ کے صدر پیر طارق ولی چشتی، تحریک نفاذ فقہ حنفیہ کے علامہ حافظ محمد یعقوب فریدی، انجمن خدام الاولیاء کے صدر صاحبزادہ محمد احمد قادری، جانثارانِ ختم ِ نبوّت کے سربراہ مولانا فیض سیالوی اور دیگر شامل ہیں۔

شاہ محمود قریشی کے گھر پر حملہ قابل مذمت ہے۔